نماز میں عورت کا پاؤں كو چھپانا

Egypt's Dar Al-Ifta

نماز میں عورت کا پاؤں كو چھپانا

Question

ت سال ٢٠٠٤ مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے:

سائل کے گاؤں میں نماز میں عورتوں کے پاؤں کے ستر کے متعلق حکم شرعی کے بارے میں اختلاف و جھگڑا پیدا ہوا ہے ، ایا پاؤں کو چھپانا واجب ہے یا یہ کہ ان كا کھولنا جائز ہے؟ سائل فتنے کا خاتمہ چاہتا ہے لہذا حکم شرعی کا طلبگار ہے.

Answer

مسلمان عورت کےلئے نماز میں چہرہ اور دونوں ہاتھوں کے علاوہ باقی سارے جسم کو ڈھانپنا واجب ہے، امام ابو حنیفہ، امام ثوری اور شوافع میں سے امام مزنی کی رائے یہ ہے کہ عورت کے پاؤں ستر میں شامل نہیں ہیں، اور امام مالک کے نزدیک عورت کے پاؤں ''ہلکے ستر'' میں سے ہيں اگر کھول دے تو بھی نماز درست ہو جائے گی، اگر چہ اپنی جگہ ان کا کھولنا حرام یا مکروہ ہے، لیکن اگر نماز کا وقت باقی ہو تو ستر کے ساتھ نماز دہرائی جائے اور اگر وقت ختم ہوچکا ہو تو دہرانا نہیں ہے لیکن اس کی گرفت یا باقی رہے گی.
حاصل کلام یہ ہے کہ علمائے کرام کے درمیان عورت کے اپنے پاؤں نماز میں چھپانے کے بارے میں اختلاف واقع ہوا ہے اور ایسے مسئلوں میں شرعی اصول و قواعد یہ ہیں:
اول: مختلف فیہ پر ملامت نہیں ہوگی بلکہ جس فعل کے ترک پر اتفاق ہوا ہو یا جس کی حرمت پر اتفاق ہو اس پر ملامت ہوگی.
دوم: اختلاف سے نکلنا مستحب ہے.
سوم: جس کو مختلف فیہ مسائل میں سے کسی مسئلے کا سابقہ پڑجائے انہیں جواز والے مجتہد کی تقلید کرنی چاہئے.
مذکورہ بالا بیان اور سوال کا لحاظ کرتے ہوئے ہم کہتے ہیں ، عورت کا اپنے پاؤں کو چھپانا انہی اختلافی مسائل میں سے ہے جن میں ایک مذہب کو لیکر دوسرے مذہب پر اعتراض کرنا درست نہیں، اور عورت کو یہ جاننا چاہئے کہ پاؤں کو چھپانا اختلاف سے نکلنے کےلئے مستحب ہے، اس کے باوجود وہ پیروں کے کھلے رکھنے کے جواز کے قائلین کی تقلید کرنے کا بھرپور حق رکھتی ہے اس صورت میں کوئی حرج نہیں ہے اور ان کی نماز درست ہے.
ایسے امور کو فتنے کا ذریعہ یا مسلمانوں کے درمیان انتشار و پراگندگی کا وسیلہ نہیں بنانا چاہئے کیونکہ یہ ظنی مسائل میں سے ہے جن میں اختلاف روا ہے ان میں ہمیں اسی وسعت سے پیش آنا چاہئے جس طرح سلف صالحین آیا کرتے تھے انہوں نے ان میں اختلاف رائے کیا لیکن انتشار اور فتنہ پروری سے کنارہ کش ہو کر.

باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے۔
 

Share this:

Related Fatwas