ڈپازٹ رقم کو وقف کرنے اور اس کے فوا...

Egypt's Dar Al-Ifta

ڈپازٹ رقم کو وقف کرنے اور اس کے فوائد کو خیرات کرنے کا حکم

Question

ت سال ٢٠٠٦ مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے:

یہ سوال موضع ''تفہنا الاشراف'' مرکز میت غمر، ضلع دقہلیہ کے اول درجے والوں کے ازہری ماڈل اسکول(میٹرک اور ہائر سکنڈری) کے نام سے ایک مخصوص رقم ڈپازٹ رکھنے کی شرعی حیثیت کے بارے میں ہے ،یہ رقم اس غرض سے رکھی جائےگی کہ اس کے فوائد اس اسکول کے طلبہ کے اخراجات، رہائش، تعلیمی وسائل اور یونیفارم وغیرہ پر صرف کئے جائیں، یہ بھی واضح رہے کہ اس اسکول میں تعلیم اور رہائش مفت فراہم کی جاتی ہے.

Answer

درہم و دینار كے وقف کو مالکی حضرات اپنی کتابوں میں جائز قرار دیتے ہیں چنانچہ امام خرشی ــ''مختصر خلیل'' کی شرح میں لکھتے ہیں: ''جو چیزمتعین نہیں رہتی مذہب اس کے وقف کے جواز کا ہے جیسے کہ کھانا، دینار اور درہم ، جیسا کہ شامل کا کلام اس بات پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ انہوں نے جواز کا قول نقل کرنے کے بعد کراہت کا قول لفظ ''قیل''( یعنی کہا گیا ہے)کے ساتھ نقل کیا ہے، اور منع کا قول ضعیف ترین قول ہے، اور زکوۃ کے باب میں مولف کا یہ قول[اور جو چیز ادھار دینے کےلئے وقف رکھی گئی ہو اس پر زکوۃ ہو گی ] سابقہ حکم کی درستگی پر دلالت کرتا ہے. ختم شد. اور شیخ علی بن احمد صیعدی عدوی اس شرح پر اپنے حاشیے میں رقمطراز ہیں: ''دینا ر اور درہم یا دیگر چیزوں کو ادھار دینے کےلئے وقف کرنا بالکل جائز ہے''. مزید اس طرح کے حوالے ''التاج والاکلیل لمختصرخلیل'' اور ''الشرح الکبیر'' پر دسوقی کے حاشیے وغیرہ میں بهى مذکور ہيں۔
اور یہ بات معروف ہے کہ وقف کے تئیں شریعت کی غرض و غایت یہ ہے کہ محل وقف میں تصرف نہ ہو ، یعنی وقف کی گئی چیزاستعمال سے فنا نہ ہو، اور یہ کہ اس کا فائدہ زیادہ سے زیادہ طویل مدت تک جاری وساری رہے، چنانچہ جب مالکی حضرات نے درہم اور دینار کے نفع کو دیکھا کہ اس سے صرف صورت میں عین چیز باقی نہیں رہتی تو انہوں نے ادھار کےلئے ان دونوں میں وقف کو جائز قرار دے دیا، کیونکہ یہ دونوں ادھار دئے جانے میں حکم کے اعتبار سے باقی رہتے ہیں اگر چہ ان کا اصل چلا بھی جائے. شیخ صعیدی عدوی نے خرشی پر اپنے حاشیے میں لقانی کا قول نقل کیا ہے: ''وقف وہ ہے جس کی اصل حقیقت میں باقی رہے اور اس سے فائدہ حاصل کیا جائے، یا حکم کے اعتبار سے باقی رہے جیسے کہ درہم اور دینار''. ختم شد. اور دسوقی ''شرح کبیر'' پر اپنے حاشیے میں لکھتے ہیں: ''اور اس کے معاوضہ کا لوٹانا اس کے اصل کے باقی رہنے کے حکم میں ہے'' ختم شد.
جب فقیہ اس دور میں مال کو روکے رکھنے اور اس کے فوائد کو خیرات کرنے کے مسئلے میں غور کرتا ہے تو انہیں وہ علت یہاں بھی ملتی ہے جس کی بنا پر مالکی حضرات نے کراہت کے ساتھ درہم اور دینار وقف کرنے کو مباح قرار دیا ہے، اور انہوں نے اسے مکروہ اس لئے جانا ہے۔ اورعموما مکروہ جائز ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے ضائع ہونے کا احتمال بہرحال قائم ہے، لیکن ہم جب اس وقت کے جاری و ساری بینک میں جمع کرنے کے معمولات کے حالات کا احاطہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کے ڈپازٹ توتقریبا پچاسوں سال تک یا اس سے بھی زیادہ مدت تک باقی رہتے ہیں، تو اس طور پر وقف کےلئے شریعت میں مطلوب'' باقی رہنے'' کی شرط اعتباری طور پراس میں پائی جاتی ہے، اسی امر کے پیش نظر ہم سائل كے استفتاء كرده مالی ڈپازٹ رکھنے اور اس کو وقف کرنے اور اس کے فوائد کو خیرات کرنے کے جواز کے حق میں ہیں.

باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas