عزت مآب صدر عبدالفتاح السیسی کی سرپرستی میں دنیا بھر کے دارالافتاء اور فتاویٰ مراکز کے جنرل سیکریٹریٹ کی دسویں بین الاقوامی کانفرنس بعنوان: "مصنوعی ذہانت کے دور میں باشعور مفتی کی تشکیل" (12 تا 13 اگست 2025ء) کا تصوراتی خاکہ

مقدمہ
بسم الله الرحمن الرحيم، والصلاة والسلام على أشرف المرسلين، سيدنا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.
اما بعد!
آج کی دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں مصنوعی ذہانت اب محض ایک علمی آسائش یا مستقبل کی ٹیکنالوجی نہیں رہی، بلکہ یہ فیصلہ سازی، انسانی رویوں کی سمت سازی، اور اقتدار، علم و شرعی اتھارٹی جیسے بنیادی تصورات کی ازسرِنو تشکیل میں ایک کلیدی عنصر بن چکی ہے۔
اس ہمہ گیر تبدیلی کے بیچوں بیچ، اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ "مفتی" کے کردار کو -ایک شرعی مرجع کے طور پر- دوبارہ واضح کیا جائے — ایسا مرجع جو صرف دینی نصوص سے نہیں، بلکہ اُن مسلسل بدلتے ہوئے حالات سے بھی نبرد آزما ہو، جنہیں مصنوعی ذہانت ہر لمحے نئی صورت میں پیدا کر رہی ہے۔
اور جب فتویٰ اسلامی معاشروں کے زندہ ضمیر کی حیثیت رکھتا ہے، تو اسے عصرِ جدید کے تقاضوں، خصوصاً مصنوعی ذہانت کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے دوبارہ منظم اور مربوط کرنا ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔
اسی ضرورت کے تحت یہ کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے، جو نہ صرف جنرل سیکریٹریٹ کے قیام کے دس برس مکمل ہونے کی یادگار ہے، بلکہ ڈیجیٹل دور میں فتویٰ سازی کی نئی بصیرتوں کو اجاگر کرنے کی ایک سنجیدہ علمی کاوش بھی ہے۔
اس موضوع کے انتخاب کی اہمیت
مصنوعی ذہانت کا علمی و دینی رہنمائی کے شعبے پر اثر و رسوخ:
دنیا اس وقت ایک زبردست علمی انقلاب سے گزر رہی ہے، جس کی قیادت ذہین الگورتھمز (سمارٹ کمپیوٹر پروگرام) کر رہے ہیں۔جو اب خود لکھنے، تجزیہ کرنے، سوالات کے جوابات دینے اور صارفین کے لیے ذہنی نمونے تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس تناظر میں ایک بنیادی سوال یہ ہے: ہم اس بات کی ضمانت کیسے دیں کہ "مفتی" آج کے اس ہنگامہ خیز ماحول میں بھی ایک معتبر اور قابلِ اعتماد دینی مرجع بنا رہے، جبکہ فتاویٰ دینے کا میدان غیر مستند انٹرایکٹو پلیٹ فارمز بھرا پڑا ہے؟
معاصر چیلنجز کے مقابلے میں دارالإفتاء المصریہ کا قیادی کردار:
دار الإفتاء مصر ایک قدیم اور معتبر دینی ادارہ ہے جو فتویٰ کے میدان میں گراں قدر تجربہ اور جدید دور کے مسائل سے مؤثر طور پر نبرد آزما ہونے کی ایک روشن تاریخ رکھتا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف عالمی سطح پر ایک معتبر مرجع کے طور پر پہچانا جاتا ہے بلکہ اس کا افتائی خطاب اعتدال، توازن اور بصیرت پر مبنی ہوتا ہے، جو علمی، فکری اور اخلاقی چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے — خاص طور پر اس تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ٹیکنالوجی کی دنیا میں، جس کا ایک اہم مظہر مصنوعی ذہانت ہے۔ اپنے مربوط اور جامع ماڈل کے ذریعے، دارالإفتاء المصریہ ان جدید ٹیکنالوجیز کی روشنی میں فتویٰ کے مستقبل کا جائزہ لینے، اور انہیں مقاصدِ شریعت کے تابع بنانے کے امکانات واضح کرنے کی کوشش کر رہا ہے — ساتھ ہی ان ٹیکنالوجیز سے جُڑے ممکنہ خطرات کے بارے میں بروقت خبردار کرنا بھی اس کی فکری بصیرت کا حصہ ہے۔
باشعور مفتی کی تشکیل کی اہمیت:
آج کے دور میں صرف اتنا کافی نہیں کہ مفتی دینی نصوص سے واقف ہو، بلکہ ضروری ہے کہ وہ پیچیدہ ڈیجیٹل فضا کے تناظر کو سمجھنے والا ہو، اور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو ایک مؤثر دعوتی و افتائی میدان کے طور پر برتنا جانتا ہو۔ اسے یہ بھی آنا چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والے عوامی جذبات سے بھرے، نظریاتی اور گمراہ کن خطابات کا تجزیہ اور رد کیسے کرے، تاکہ فتویٰ کی زبان علمی، مؤثر اور موزوں رہے۔
جدید میڈیا پلیٹ فارمز پر بے بنیاد فتاویٰ کے بڑھتے ہوئے خطرات:
آج ایک اوپن ڈیجیٹل دنیا اور غیر منظم پلیٹ فارمز پر ایسے فتاویٰ گردش کر رہے ہیں جو نہ صرف اسلام کی شبیہ کو نغاڑتے ہیں بلکہ دینی نصوص کو ان کی روح اور مقاصد سے خالی کر دیتے ہیں۔ ایسے میں یہ ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ ایسی سمارٹ نگرانی کی تکنیکی تدابیر اختیار کی جائیں جو فتویٰ کی ساکھ کو قائم رکھ سکیں، اور انحرافات کا جواب علمی، بصیرت افروز، تیزرفتار اور ڈیجیٹل تجزیے پر مبنی مؤثر انداز میں دے سکیں۔
مصنوعی ذہانت کے تناظر میں موجودہ دور کے پیچیدہ حالات:
دنیا آج ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جس میں عالمگیریت، جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت باہم اس درجہ گتھم گتھا چکی ہیں کہ معاصر مسائل پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور گنجلک ہو چکے ہیں۔ ایسے میں ایک باشعور مفتی کو نئی مہارتوں اور ذرائع کی ضرورت ہے جو گہری شرعی بصیرت کے ساتھ ساتھ موجودہ پیچیدہ حالات کا درست فہم بھی فراہم کریں۔ اس میں مصنوعی ذہانت کی بنیادی تفہیم، اس کے اطلاقات، اور اس کے اخلاقی، سماجی واقتصادی اثرات کی معرفت شامل ہے، نیز حیاتیاتی ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل ماحول، ڈیٹا پر مبنی معیشت اور نئی ٹیکنالوجی کے تناظر میں بین الاقوامی تعلقات جیسے ابھرتے ہوئے موضوعات پر مؤثر انداز میں فتویٰ دینے کی صلاحیت بھی ضروری ہے۔
کانفرنس کے مقاصد
اوّل:
باشعور مفتی کی تشکیل کے لیے ایک جامع نظریہ مرتب کرنا
یہ اس طرح ممکن ہے کہ ایک ایسا دقیق تعارف پیش کیا جائے جو دورِ جدید کے مفتی کی تصویر واضح کرے — ایسا مفتی جو شرعی اصولوں کا ماہر ہو، تکنیکی فہم رکھتا ہو، اور اس کے پاس عصری بصیرت بھی ہو۔
دوم:
افتائی اداروں کی ڈیجیٹل طور پر بااختیار بنایا جائے، اس میں ادارہ جاتی نظم و نسق (گورننس) میں مصنوعی ذہانت کو مؤثر انداز میں شامل کیا جائے اور ایسے ذہین اشاریے متعارف کرانا شامل ہے جن کے ذریعے فتویٰ کے فرد، معاشرے اور ریاست پر اثرات کو جانچا جا سکے۔
سوم:
فتویٰ کے میدان میں مصنوعی ذہانت سے پیدا ہونے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جامع ضابطے اور رہنما اصول وضع کیے جائیں۔
اس کے لیے فتویٰ کے عمل کو ممکنہ خطرات—جیسے غیر معتبر خودکار فتاویٰ اور الگورتھم پر مبنی تعصبات—سے محفوظ رکھنے کے لیے عملی حل تجویز کیے جائیں، اور ادارہ جاتی سطح پر مصنوعی ذہانت کے استعمال کو واضح قانونی و اخلاقی ضابطوں کے تحت لایا جائے۔
چہارم:
مفتیانِ کرام کی تربیت کی جائے، تاکہ وہ ڈیجیٹل دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکیں۔ اس کے لیے مختلف زبانوں میں جدید تربیتی پروگرام تیار کیے جائیں جو موجودہ اور آنے والے مفتیوں کی ڈیجیٹل فہم اور مصنوعی ذہانت سے متعلق مسائل کو سمجھنے اور ان پر شرعی مؤقف اپنانے کی صلاحیت کو بہتر بنا سکیں — خاص طور پر ان کے لیے جو عالمی مسلم معاشروں میں فتویٰ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
پنجم:
فتویٰ کے شعبے میں مصنوعی ذہانت کے مثبت کردار کا جائزہ لیا جائے، اور اس سے فائدہ اٹھانے کے ایسے راستے تلاش کیے جائیں جو اخلاقی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے ہوں۔
اس ضمن میں تحقیق، مواد کا تجزیہ، اور ابتدائی مسودہ نویسی جیسے کاموں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال سے افتائی عمل کو مؤثر بنانے کے امکانات تلاش کیے جائیں، اور ڈیجیٹل دور میں ادارہ جاتی کارکردگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے واضح اصول و ضوابط طے کیے جائیں۔
ششم:
مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعاون کو فروغ دیا جاۓ، اس کے لیے دنیا بھر کے دارالافتاء اور فتویٰ مراکز کے درمیان ربط و ہم آہنگی کے ایسے نیٹ ورکس قائم کیے جائیں جو مسلم معاشروں پر مصنوعی ذہانت کے اثرات کو سمجھنے میں معاون ہوں، اور ایسے باشعور مفتیان تیار کرنے کے لیے تجربات کا تبادلہ کیا جا سکے جو ان جدید چیلنجز سے مؤثر انداز میں نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
کانفرنس کے مرکزی موضوعات
پہلا عنوان: عصرِ حاضر میں باشعور مفتی کی تشکیل
اس عنوان میں یہ بات پر گفتگو کی جائے گی کہ ایک باشعور مفتی کے لیے کون سی شرعی مہارتیں ضروری ہیں؛ جیسے کہ عصری حالات کا شعور، موجودہ معاشرتی چیلنجز سے واقفیت، ٹیکنالوجی، ماحولیات اور بین الاقوامی تعلقات جیسے موضوعات سے نبٹنے کی صلاحیت، قیادت و بحرانوں کے انتظام کی اہلیت، اور مکالمے و مؤثر ابلاغ کی مہارت۔
تجویز کردہ تحقیقی عنوانات:
- باشعور مفتی: اوصاف اور تشکیل کے بنیادی تقاضے
- ادارہ جاتی فتویٰ کے دور میں مفتیوں کی تربیت
- مفتی: فہمِ نص اور فہمِ واقعہ کے درمیان
- معاصر چیلنجز کے تناظر میں مفتی کی تربیت
- ادارہ جاتی فتویٰ کے دور میں مفتیوں کی مطلوبہ مہارتیں
- کمزور عصری شعور کے باعث مفتیوں کی لغزشیں: ایک تجزیاتی مطالعہ
- فقہِ واقع اور فقہِ متوقع کا معاصر فتوے کے انضباط پر اثر
دوسرا عنوان: دورِ جدید میں فتویٰ اور مصنوعی ذہانت
اس عنوان میں اس اہم مسئلے کا جائزہ لیا جائے گا کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے فتویٰ دینے کا عمل کیسا ہونا چاہیے؛ اس میں اس کے شرعی حکم، استعمال کے ضوابط، اور یہ کہ مصنوعی ذہانت کو فتویٰ دینے اور فتویٰ سازی کے عمل میں کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
تجویز کردہ تحقیقی عنوانات:
- فتویٰ میں مصنوعی ذہانت کا استعمال: شرعی حکم اور ضروری ضوابط
- فتویٰ کی تشکیل میں مصنوعی ذہانت کا اثر
- مصنوعی ذہانت کی روشنی میں ڈیجیٹل فتویٰ کے ضوابط
- مصنوعی ذہانت کے ذریعے پھیلنے والے غیر مستند فتاویٰ اور گمراہ کن معلومات کا تدارک
- مصنوعی ذہانت سے بھرپور معلوماتی ماحول میں افتائی اداروں کو قابلِ اعتماد ماخذ بنانے کی حکمتِ عملی
- "روبوٹ مفتی" کی شرعی حیثیت اور ضوابط
- مصنوعی ذہانت کے دور میں فتویٰ کا مستقبل
تیسرا عنوان: مصنوعی ذہانت کے چیلنجز کے مقابل باشعور مفتی کا کردار
یہ عنوان اس بات کا جائزہ لے گا کہ باشعور مفتی کو عصرِ حاضر کی نئی ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ پیدا ہونے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کیسے تیار کیا جائے۔ اس میں ان مہارتوں پر روشنی ڈالی جائے گی جو ایک مفتی کو اس میدان میں درکار ہیں، ان خطرات کی نشاندہی کی جائے گی جن کا سامنا ایک مفتی کو ہو سکتا ہے اگر وہ ان جدید تغیرات سے ناآشنا ہو، اور اس بات پر زور دیا جائے گا کہ علومِ شرعیہ اور جدید سائنسی علوم کے درمیان ہم آہنگی کتنی اہم ہے۔
تجویز کردہ تحقیقی عنوانات:
- عصرِ حاضر کے مفتی کی تربیت میں تکنیکی شعور کی بنیادی حیثیت
- باشعور مفتی کے لیے درکار مہارتیں: شریعت اور ٹیکنالوجی کے درمیان توازن
- مفتی اور مصنوعی ذہانت کی اخلاقی تحدیات
- باشعور مفتی کی تشکیل میں مصنوعی ذہانت کی تکنیکیوں کا کردار
- مفتی کی ڈیجیٹل مہارتیں: تحلیلی سوچ، سائبر سیکیورٹی، اور ابلاغی ذہانت
- نئے ڈیجیٹل میدان کا فقہ: مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل کرنسیاں، میٹاورس اور ڈیجیٹل پرائیویسی
- مصنوعی ذہانت کے تعصبات (فکری میلان) اور ان کے فتاویٰ پر ممکنہ اثرات
چوتھا عنوان: مصنوعی ذہانت اور ادارہ جاتی افتائی نظام کی ترقی
اس عنوان میں افتاء کے ادارہ جاتی نظام کی ترقی میں مصنوعی ذہانت کے کردار پر گفتگو کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت کی افادیت، اس کے شرعی و اخلاقی ضوابط، اور اس کی تطبیقات کے اصولوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس ضمن میں ان اداروں کے تجربات کو بھی نمایاں کیا جائے گا جو فتویٰ کے عمل میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو استعمال کر رہے ہیں، جن میں سرِفہرست دار الإفتاء المصریة ہے۔
تجویز کردہ تحقیقی عنوانات:
- عصرِ مصنوعی ذہانت میں ادارہ جاتی افتاء کی اہمیت
- افتائی اداروں میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے کارکردگی کی بہتری
- ڈیجیٹل چیلنجز کے مقابلے میں ادارہ جاتی فتویٰ کی حکمتِ عملی
- ڈیجیٹل دور میں افتائی اداروں کی کارکردگی کے اشاریے: اہمیت اور بہتری کے طریقے
- فتویٰ کے میدان میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کے شرعی و اخلاقی ضوابط
- مفتیوں کو ضروری ڈیجیٹل شعور فراہم کرنے میں افتائی اداروں کا کردار
- درست شرعی علوم کی مقامی سطح پر ترویج و نفوذ کا ڈیجیٹل فتویٰ پر اثر
پانچواں عنوان: عصرِ مصنوعی ذہانت میں باشعور مفتی کی تشکیل کے میدان میں افتائی اداروں کے تجربات
اس عنوان میں دنیا بھر کے دارالافتاء اور فتاویٰ مراکز کی جانب سے باشعور مفتی کی تشکیل کے سلسلے میں کیے گئے مختلف تجربات کا جائزہ لیا جائے گا۔ ان تجربات کے ذریعے حاصل شدہ مہارتوں کی نشان دہی، سیکھے گئے اسباق، اور اس مقصد کے لیے اختیار کردہ عملی اقدامات کو اجاگر کیا جائے گا تاکہ افتائی ادارے ایک دوسرے سے استفادہ کر سکیں۔
تجویز کردہ تحقیقی عنوانات:
- فتاویٰ کے میدان میں ٹیکنالوجی کے استعمال اور پیش بینی میں دارالإفتاء المصریہ ایک نمایاں ماڈل
- باشعور فتویٰ سازی میں مصری تجربہ: ایک تطبیقی مطالعہ
- اردن کے دارالافتاء عامہ میں مفتی کی تیاری کا نظام
- باشعور مفتی کے بارے میں مجلسِ امارات برائے شرعی افتاءکا نظریہ
- مصنوعی ذہانت کے دور میں مفتی سازی میں ملیشیا کا تجربہ
- موریتانیہ میں باشعور مفتی کی تیاری کا نظام
- ازبکستان میں باشعور مفتی کی تشکیل کا تجربہ
دنیا بھر کے دارالافتاء اور فتاویٰ مراکز کے جنرل سیکریٹریٹ کی دسویں سالانہ عالمی کانفرنس کی خاطر مقالہ نگاری کیلئے ہدایات
- تحقیق بین الاقوامی سطح پر رائج علمی و موضوعی معیار کے مطابق ہو، زبان درست، تعبیرات واضح اور اسلوب تحقیقی ہو، نیز تحقیق میں علمی امانت و دیانت کا لحاظ رکھا گیا ہو۔
- تحقیق میں جدت اور تخلیقی انداز نمایاں ہو۔
- تحقیق نیا علمی کام ہو؛ اس سے پہلے کہیں شائع نہ ہوا ہو، نہ ہی کسی اور ادارے کو پیش کیا گیا ہو۔
- محقق اپنے مقالے کی ابتداء درج ذیل ترتیب سے کرے:
- مقالے کا عنوان
- اپنا مکمل نام بمع علمی لقب
- عہدہ
- اور اس ادارے کا نام جس سے اس کا تعلق ہے۔
- مقالے کے آغاز میں ایک خلاصہ (حدود 200 الفاظ) دیا جائے جس میں ان نکات کا بیان ہو:
- موضوع کا تعارف
- اس کے عناصر
- اختیار کردہ طریقۂ کار
- اور حاصل شدہ اہم نتائج
- ساتھ میں کلیدی الفاظ (Keywords) بھی شامل کیے جائیں جو پانچ سے زیادہ نہ ہوں۔
- مقالے کی طوالت کم از کم 20 صفحات (5000 الفاظ) اور زیادہ سے زیادہ 40 صفحات (10000 الفاظ) ہونی چاہیے۔
- مقالے کی کتابت کے لیے درج ذیل ترتیب اختیار کی جائے:
- فونٹ: Traditional Arabic
- متن: سائز 17
- حواشی: سائز 14
- عناوین: سائز 19، موٹا (Bold)
- پیراگراف دونوں طرف سے برابر (Justified) ہوں
- ہر پیراگراف کے آغاز میں 0.5 سینٹی میٹر کی خالی جگہ (Indentation) رکھی جائے۔
- مقالے کے آغاز میں ایک مقدمہ شامل ہو، جس میں موضوع کی اہمیت، زیرِ تحقیق مسئلہ ، مقاصد، سابقہ مطالعات (اگر موجود ہوں)، تحقیق کا خاکہ اور طریقۂ کار بیان کیا جائے۔
- مقالہ حسبِ ضرورت ابواب، مباحث، مطالب اور فروع میں تقسیم کیا جائے۔
- مقالے کے آخر میں ایک خاتمہ دیا جائے، جس میں نتائج اور سفارشات شامل ہوں۔
- ماخذات کا حوالہ ہر صفحے کے نیچے (Footnote) دیا جائے، عبارت کے اندر درج نہ کیا جائے۔
- تمام حواشی خودکار طریقے سے (Auto-numbering) ہر صفحے کے نیچے علیحدہ علیحدہ نمبروں کے ساتھ لکھے جائیں۔
- تمام حوالہ جات، چاہے متن میں ہوں یا نیچے، قوسین () میں ہوں۔
- حوالہ دیتے وقت صرف کتاب کا نام اور مصنف کا نام لکھا جائے، مکمل اشاعتی تفصیلات مقالے کے آخر میں "فہرستِ مراجع" میں حروفِ تہجی کے مطابق درج کی جائیں۔
- اگر حوالہ کسی ویب سائٹ سے لیا گیا ہو تو رابطہ (Hyperlink) اور مطالعے کی تاریخ ضرور لکھی جائے۔
- قرآنی آیات مکمل اعراب کے ساتھ مصحفِ شریف سے نقل کی جائیں، انہیں ایسے قوسین میں لکھا جائے: ﴿...﴾، آیت کے بعد سورت اور آیت نمبر کو [سورۃ ...: آیت ...] کی شکل میں متن کے اندر ہی لکھا جائے۔ نیز موٹا (Bold) کر کے تحریر کیا جائے۔
- احادیثِ مبارکہ کو علاماتِ تنصیص «...» میں لکھا جائے، Bold اور اعراب مکمل ہوں۔
- تحقیق میں رموزِ اوقاف (Punctuation) کا درست استعمال کیا جائے۔
- تحقیقی کمیٹی سے منظور شدہ تحقیقی مقالے کانفرنس کی کتاب میں شائع کی جائیں گے۔
کانفرنس کا وقتی شیڈول:
- کانفرنس کا انعقاد: 12 اور 13 اگست 2025ء
- خلاصے جمع کروانے کی آخری تاریخ: 8 جون 2025ء
- مکمل مقالہ جمع کروانے کی آخری تاریخ: 8 جولائی 2025ء
- مقالے کے تحکیمی جائزے کے بعد شریک محقق کو قبولیت کی اطلاع دی جائے گی۔
تحقیقات جمع کروانے کا طریقۂ کار:
تمام خلاصے اور مکمل تحقیقی مقالات درج ذیل ای میل پتے پر ارسال کیے جائیں:
📧 fatwaconferance2025@gmail.com