جمعہ کے دن اجتماعی طور پر سورہ کہف پڑھنے کا حکم
Question
Answer
اجتماعی طور پر قرآن کریم کی تلاوت جائز ہے اور قرآن مجید کی تلاوت کے استحباب پر دلائل موجود ہیں اور انہی دلائل کے عموم میں یہ اجتماعی تلاوت بھی داخل ہے، چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُورَ) - بیشک وہ جو اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دیے سے کچھ ہماری راہ میں پوشیدہ اور ظاہر میں خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت پہ یقین رکھتے ہیں جس میں ہرگز نقصان نہیں - [ سورہ فاطر: ٢٩]، اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ''قرآن پڑھا کرو بے شک وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی بن کر آئے گا''۔ امام مسلم نے حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کی سند سے اسکی روایت کی ہے. اور اس کے علاوہ اس مسئلے کے متعلق اور بھی مطلق نصوص موجود ہیں اور اصول فقہ میں یہ بات طے شدہ ہے کہ مطلق کا حکم اشخاص، احوال، اوقات اور جگہ میں عموم بدل کا متقاضی ہوتا ہے یعنی فردا فردا اور متبادل طور پر سب کو شامل ہوتا ہے، واضح رہنا چاہئے کہ اللہ تعالی جب کوئی حکم عموم یا اطلاق پر رکھتا ہے تو وہ حکم اپنے عموم اور وسعت پر ہی بر قرار رہے گا ، اور ایسے حکم کو کسی ایک پہلو یا کسی خاص حالت کے ساتھ بغیر دلیل کے مخصوص کرنا یا مقید کرنا درست نہیں ہوتا ، کیونکہ ایسی حرکت مذہب اسلام میں بدعت کی بیج بونے کے مترادف ہے اور اس عمل سے اس حکم میں تنگی پیدا ہو جائے گی جس كو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وسعت پر چهوڑا ہے.
اور عموم شمولی- یعنی ایسا لفظ جو اپنے مفہوم کے سارے افراد کو بیک وقت شامل ہو جیسے انسان- یا عموم بدل - یعنی ایسا لفظ جو اپنے مفہوم کے سارے افراد کو بیک وقت شامل نہ ہو لیکن فردا فردا ہر ایک کو شامل ہو جیسے نماز- کے کسی ایک پہلو یا کسی ایک فرد پر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل فرمانے سے اس کے عموم میں خصوصیت پیدا نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی مطلق کا اطلاق ختم ہوتا ہے الا یہ کہ الگ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کسی خاص جزئی سے منع فرمایا ہو، اسی بات کو اہل اصول اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں: ''الترک لیس بحجۃ'' یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی چیز کو ترک فرمانا حجت نہیں ہے، لہذا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی چیز کو چھوڑنا اس چیز کے نا جائز ہونے پر دلالت نہیں کرتا، اور یہ مسئلہ علمائے کرام کے درمیان متفق علیہ مسئلہ ہے.
شیخ الاسلام امام ابو زکریا یحیٰ نووی نے اس مسئلے کے بارے میں معلومات سے لبریز کتاب ''التبیان فی آداب حملۃ القرآن'' میں ایک عمدہ فصل قائم کی ہے، اس میں تحریر فرماتے ہیں: ''یہ بحث لوگوں کے ایک ساتھ مل کر تلاوت کرنے کے استحباب کے بیان میں ہے، اس میں تلاوت کرنے والوں اور سننے والوں کے فضائل مذکور ہیں، اور ایسے حضرات کی خوبیوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے اس کار خیر کےلئے لوگوں کو جمع کیا اور اس کی ترغیب دی اور اس کی طرف بلایا.
معلوم ہونا چاہئے کہ لوگوں کا مل کر ایک ساتھ تلاوت کرنا مستحب ہے اور اس پر واضح دلائل موجود ہیں، امت کے پچھلوں اور اگلوں کے مسلسل معمولات اس کے واضح ثبوت ہیں، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنھما نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''ہر وہ قوم جو اللہ تعالیٰ کو یاد کرتی ہے تو فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور ان پر رحمت چھا جاتی ہے اور ان پر سکینت کا نزول ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا تذکرہ ان کے درمیان فرماتا ہے جو اس کے پاس ہیں''. امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''جب کوئی جماعت اللہ کی کتاب پڑھنے کے لیے اور آپس میں اس کى درس و تدریس کے لئے اللہ تعالی کے کسی گھر میں جمع ہو جاتی ہے، تو ان پر اطمئنان کا نزول ہوتا ہے اور ان پر رحمت چھا جاتی ہے اور انہيں فرشتے گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں میں ان کا تذکرہ فرماتا ہے''. اس حدیث کی امام مسلم نے روایت کی ہے، اور ابو داود نے بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح اسناد کے ساتھ اس کی روایت کی ہے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک مجلس کے پاس آئے اور پوچھے: ''آپ لوگ کس چیز کے لئے بیٹھے ہو؟ انہوں نے عرض کی: ہم اس لئے بیٹھے ہیں تاکہ اللہ کا ذکر کریں اور اس کا شکر بجا لائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی طرف ہدایت بخشی اور اس کے ذریعہ ہم پر فضل فرمایا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور یہ خبر دی کہ اللہ تعالی فرشتوں میں تم پر فخر کرتا ہے''. ترمذی اور نسائی نے اس کی روایت کی ہے اور ترمذی نے اس حدیث كو حسن صحیح كہا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اس بارے میں اور بھی بہت ساری احادیث وارد ہیں.
امام دارمی نے اپنی اسناد کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے كہ انہوں نے فرمایا: ''جو شخص اللہ تعالی کی کتاب کی کوئی آیت سنتا ہے تو وہ اس کے لیے نور ہے''. اور ابن ابو داود نے روایت کی ہے کہ ابو درداء رضی اللہ عنہ قرآن پڑھایا کرتے تھے اور ان کے پاس کچھ لوگ ہوتے تھے جو مل کر ایک ساتھ پڑھتے تھے، اور ابن ابو داود نے اگلے اور پچھلے کئی اہل فضل و کمال اور کئی متقدمین قاضیوں کے بارے میں نقل کیا ہے کہ ایک ساتھ مل کر قرآن مجید پڑھنا اور پڑھانا ان کا معمول تھا، اور حسان بن عطیہ اور اوزاعی سے روایت ہے ، انہوں نے بیان کیا ہے: سب سے پہلے جس نے دمشق کی مسجد میں تعلیم اور درس و تدریس کی بنیاد ڈالی وہ ہشام بن اسماعیل تھے يہ انہوں نے اس وقت كيا جب وہ عبد الملک کے پاس آئے تھے، اور ابن ابو داود نے ضحاک بن عبد الرحمن بن عرزب سے جو روایت کی ہے کہ انہوں نے اس سلسلہ درس و تدریس کا انکار کیا اور کہا: میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کو پایا ہے لیکن ان میں سے کسی کو ایسا کرتے نہیں پایا اور نہ کسی سے سنا ہے کہ ان حضرات کا یہ عمل رہا ہے، اور حضرت وہب سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا: میں نے حضرت مالک سے عرض کی آپ کی رائے لوگوں کے اس عمل کے بارے میں کیا ہے کہ ایک جگہ اکٹھے ہو کر ایک ہی سورت کی تلاوت کرتے ہیں اور سورت ختم کرتے ہیں تو انہوں نے اس عمل کی تنقید و مذمت کی اور فرمایا لوگ ایسا تو نہیں کرتے تھے، بلکہ ہوتا یہ تھا کہ ایک شخص دوسرے کو پڑھکر سناتا تھا، لہذا ان دونوں حضرات کا یہ انکار امت کے اگلوں اور پچھلوں کے عمل کے خلاف ہے ، اور بے دلیل ہے ، لہذا یہ رائے نا قابل اعتناء ہے اس لئے اس کے استحباب کے متعلق جو تفصیلات گذری ہیں وہی قابل اعتماد ہيں، لیکن جماعت کے ساتھ پڑھنے کے کچھ شرائط ہیں جن کا تذکرہ ہم کر چکے ہیں، ان شرائط کو ملحوظ رکھنا لازم ہے ۔ و اللہ اعلم.
تلاوت کے لئے جمع کرنے والے کی فضیلت کے متعلق بھی بہت ساری نصوص وارد ہیں ، جیسے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد: ''نیکی کی رہنمائی کرنے والا نیکی کرنے والے ہی کی طرح ہے''، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: '' اگر اللہ تعالیٰ تمہاری وجہ سے ایک آدمی کو ہدایت دے دے تو وہ تمہارے لیے سرخ - یعنی عمدہ - اونٹوں سے بہتر ہے''. اس کے علاوہ اس سے متعلق اور بھی بہت ساری حدیثیں موجود ہیں جو مشہور ومعروف ہیں، مزید یہ کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبرِّ وَالتَّقْوَى) - اور نیکی اور پرہیز گاری پر ایک دوسر ے کی مدد کرو - [ سورہ مائدہ: ٢]، اور اس کار خیر میں کوشش کرنے والے کے عظیم ثواب میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے''.
امید ہے کہ مذکورہ بالا تفصیلات جواب جاننے کے لئے کافی ہوں.
باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے