حیض کی مدت میں طلاق دینا
Question
Answer
فقہ میں یہ تصریح آچکی ہے کہ واضح لفظوں میں طلاق دیتے ہی عورت پر طلاق واقع ہو جاتی ہے چاہے وہ پاکی کی حالت میں ہو یا حیض کی حالت میں بشرطیکہ طلاق دینے والا طلاق دینے کا اہل ہو کیونکہ طلاق دینے کا مقصد ایک بندھن کو ختم کرنا اور اس سلسلے کے حقوق کو اپنے ذمے سے ہٹانا ہے اسلئے یہ کسی خاص وقت کے ساتھ مقید نہیں ہوتا. چونکہ طلاق کے احکام سے متعلق آیتیں مطلق آئی ہیں ان میں ایسی کوئی قید نہیں رکھی گئی ہے اور نہ ہی ان سے ہٹ کر ایسے دوسرے نصوص ملتے ہیں جن سے ان مطلق نصوص کو مقید کیا جا سکے ، اس بنا پر وقوع طلاق کا قول لازم آتا ہے. اور حیض کے دوران طلاق دینے کی ممانعت در حقیقت بیوی کی عدت کو دراز کرنے جیسے ظالمانہ تصرف کی وجہ سے ہے، اسی لیے تو شوہر گنہگار ہوتا ہے . لیکن یہ تصرف طلاق واقع ہونے میں مانع نہیں ہوتا کیونکہ جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ابن عمر کو حیض کے دوران طلاق دینے سے منع فرمایا تو ابن عمر نے پوچھا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم آپ کیا فرماتے ہیں اگر میں اسے تین طلاق دے دوں تو ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا: "تب تو تو اپنے پروردگار کا نافرمان بھی ہوگا اور وہ تجھ سے جد ا بھی ہو جائے گی".
اس بنا پر اگر شوہر اپنی بیوی کو حیض کے دوران "انت طالق'' تو مطلقہ ہے کہے'، تو طلاق واقع ہو جا ئے گی اور گذشتہ دو طلاقوں کو ملا کر یہ تیسری ہو جائے گی اور اس کی بیوی اس سے جدا ہو جائے گی ، اور یہ جدائی ''بینونہ کبری'' یعنی بڑی جدائی ہو جائے گی اور اگر بیوی کے ساتھ مباشرت ہو چکی ہو تو پھر وہ اس کےلئے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کہ اسکا کسی دوسرے مرد سے صحیح نکاح نہ ہو جائے اور اس میں یہ بھی شرط ہے کہ وہ اس کے ساتھ حقیقی مباشرت کرے پھر اس کے بعد یا تو طلاق دے یا مر جائے پھر پہلا والا شوہر اس عورت کی اجازت اور مرضی سے اس کے ساتھ نئے عقد اور مہر سے شادی کر سکتا ہے بشرطیکہ اس کی عدت بھی گذر چکی ہو.
امید ہے کہ مذکورہ بالا بیان سے جواب حاصل کر لیا جائے گا.
و اللہ سبحانہ و تعالی اعلم.