سوگ منانے، سیاہ لباس پہننے، چالیسوا...

Egypt's Dar Al-Ifta

سوگ منانے، سیاہ لباس پہننے، چالیسواں اور برسی منانے کا حکم

Question

سال ٢٠٠٥ء مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو مندرجہ ذیل سوال پر مشتمل ہے:

ایک سال سے زیادہ مدت تک سوگ منانے اور کالا لباس پہننے، چالیسواں اور برسی منانے کا کیا حکم ہے؟ اسی طرح ختم قرآن کرنے اور حاضرین میں سے ہر شخص کا ایک ایک پارہ پڑھکر میت کو ثواب بخشنے جیسے اعمال کا حکم کیا ہے؟.

Answer

اللہ تعالی نے اُس عورت کے لیے سوگ منانا جائز رکھا ہے جس کا شوہر فوت ہو گیا ہو، اس میں حکمت یہ ہے کہ اس عمل کے ذریعے شوہر کے ساتھ وفاداری کا اظہار ہو اور عورت پر شوہر کے حق کی رعایت عياں ہو سکے، کیونکہ ازدواجی رشتہ کوئی عام رشتہ نہیں ہوتا ہے بلکہ بہت مضبوط معاہدہ ہوتا ہے، اور وفاداری کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ شوہر کے مرتے ہی اس کی بیوی زیب و زینت میں منہمک ہو جائے اور چمکدار معطر کپڑے پہننے لگے اور ازدواجی گھر سے فورا منتقل ہو جائے اور ایسا تاثر قائم ہو کہ جیسے ان کے درمیان کوئی صحبت تھی ہی نہیں.
ابتدائے اسلام میں بیوی مکمل ایک سال تک درد و غم کی حالت میں گزارتی تھی اور اپنے شوہر کی وفات پر سوگ مناتی تھی لیکن اللہ تعالی نے اس مدت کو مختصر کر کے چار ماہ اور دس دن کر دیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا) - اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور اپنی بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن روکے رکھیں - [سورہ بقرہ: ٢٣٤]، اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں: ''جو عورت اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ ماتم کرے سوائے شوہر کے، اس پر چار ماہ دس دن ماتم کرے''. امام بخاری نے حضرت ام حبیبہ کی سند سے اس حدیث کی روایت کی ہے. شوہر کے علاوہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ ماتم کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ حدیث نبوی شریف میں تصریح آئی ہے.
رہی بات چالیسواں، برسی اور اس طرح کی دیگر یادگاریں منانے کی جو ماتم کی شکل میں منائی جاتی ہیں اور حزن و ملال کی یہ یادگاریں وفات کے دن کے ماتم سے کم نہیں ہوتى ہيں، پھر اس کے بارے میں اخباروں میں اعلان چھپتے ہیں اور خیمے لگتے ہیں اور تعزیت کرنے والے یکے بعد دیگرے آتے ہیں، آنے والوں کی تعریفیں ہوتی ہیں اور آنے سے قاصر رہنے والوں کی ملامت ہوتی ہے، اور غیر حاضری کے عذر قبول نہیں ہوتے، اس کے علاوہ عورتیں صبح سویرے ایک اور ماتم مناتی ہیں چیخ و پکار اور رونے کا ماحول بنتا ہے اور حزن و ملال اور غم تازہ کیا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ اس طرح کے اعمال شرعی لحاظ سے حرام ہیں کیونکہ ان سے غم دوبارہ تازہ ہوتا ہے اور اہل میت کو صبر آزما مشقت اٹھانی پڑتی ہے، واضح رہے کہ جمہور فقہاء کے مذہب کے مطابق تعزیت کی مدت تین دن ہے اور اس کے بعد تعزیت کرنا مکروہ ہے ، اس بارے میں ان کی دلیل یہ ہے کہ شریعت نے صرف تین دن کی اجازت دی ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث شریف یعنی حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنھا سے مروی حدیث میں آيا ہے.
رہی بات قرآن کریم پڑھنے کی اور اس کا ثواب میت کو بخشنے کی تو يہ ایک جائز اور مندوب امر ہے، اور شیخ عثمانی نے اپنی کتاب'' رحمۃ الامۃ فی اختلاف الاَئمۃ'' میں اس کے جواز پر اجماع نقل کیا ہے، ان کی عبارت یوں ہے: ''چنانچہ انہوں نے اجماع کیا ہے کہ استغفار کرنا اور دعاء کرنا اور خیرات دینا اور حج کرنا اور غلام آزاد کرنا میت کو فائدہ پہونچاتا ہے اور اس کا ثواب اسے پہونچتا ہے اسی طرح قبر کے پاس قرآن پڑھنا بھی مستحب ہے''. ختم شد. واضح رہے کہ علمائے کرام نے یہ حکم حج بدل کے جواز اور اس کے ثواب پہنچنے سے اخذ کیا ہے، کیونکہ حج میں نماز بھی ہوتی ہے ، اور نماز میں سورہ فاتحہ وغیرہ پڑھا جاتا ہے، اور اگر کل پہونچ رہا ہے تو اس کے بعض کا پہنچنا بھی حتمی ہے، کیونکہ تلاوت قرآن بھی حج وغیرہ کی طرح عبادت ہے، اور بغیر صریح نص کے ایک جیسی عبادتوں میں فرق نہیں کیا جا سکتا،اس لئے قراء ت کا ثواب اللہ تعالی کی مشیت سے میت کو پہونچتا ہے خاص کر جب پڑھنے والا یہ دعاء کرے کہ اس کی قراء ت کا ثواب اللہ تعالی میت کو بخش دے،اور جاننا چاہیے ان جیسے مسائل میں اختلاف کرنا مناسب نہیں ہے.

و اللہ سبحانہ و تعالی أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas