جنابت سے طہارت بھول جانے والے شخص کی نماز کا حکم
Question
اس شخص کی نماز کا کیا حکم ہے جو احتلام کے بعد غسل کرنا بھول گیا؟
میں ایک 22 سالہ نوجوان ہوں، اور میرے ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ وہ نیند کی حالت میں احتلام کا شکار ہوا، یعنی اس سے منی خارج ہوئی، اور اسے دو دن بعد پتا چلا۔ وہ ان دنوں میں وضو کر کے نمازیں پڑھتا رہا۔ تو کیا اب، جب اسے معلوم ہو چکا ہے، ان دونوں دنوں کی ساری نمازیں دوبارہ پڑھنا لازم ہے؟ ہم آپ کے جواب کے بہت شکر گزار ہوں گے۔
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
سائل کے دوست پر لازم ہے کہ وہ ان تمام نمازوں کو دوبارہ پڑھے جو اس نے جنابت کی حالت میں پڑھی تھیں، لیکن اس سے پہلے غسل کرے اور اگر کپڑوں پر جنابت کا اثر (نجاست) ہو تو اسے بھی دھوئے۔
تفصیل۔۔۔
اگر معاملہ سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق ہے کہ سائل کا دوست احتلام کا شکار ہوا تھا لیکن اسے اس کا علم دو دن بعد ہوا، اور وہ ان دنوں میں صرف وضو کر کے نمازیں پڑھتا رہا، تو ہم یہ وضاحت کرتے ہیں کہ نماز کے صحیح ہونے کے شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ انسان حدثِ اصغر (جیسے وضو توڑنے والی چیزیں) اور حدثِ اکبر (جنابت وغیرہ) دونوں سے پاک ہو۔
اور جب سائل کے دوست کو یہ یقین ہو گیا کہ اس نے بغیر طہارت (جنابت کی حالت) میں نمازیں ادا کی ہیں، تو اس پر لازم ہے کہ پہلے غسل کرے، اور پھر ان تمام نمازوں کو دوبارہ ادا کرے جو اس نے حدثِ اکبر کی حالت میں پڑھی تھیں۔ اور "المدوَّنۃ الکبریٰ" (صفحہ 81، کتاب: الوضوء، باب: اس کپڑے کے بارے میں جس میں نجاست ہو اور اس میں نماز پڑھی گئی ہو) میں آیا ہے: کہا: میں نے امام مالکؒ سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جسے جنابت لاحق ہو جائے اور اسے اس وقت علم نہ ہو، یہاں تک کہ وہ بازار چلا جائے اور اپنے کپڑے پر جنابت کا اثر دیکھے، جبکہ وہ اس سے پہلے نماز پڑھ چکا ہو، تو انہوں نے فرمایا: وہ اپنی جگہ سے واپس لوٹے، غسل کرے، اپنے کپڑے کو دھوئے اور وہ نماز دوبارہ پڑھے، پھر اپنی حاجت کے لیے جائے۔
اور سوال میں بیان کردہ صورتِ حال میں: سائل کے دوست پر لازم ہے کہ جنابت کی حالت میں جو نمازیں اس نے ادا کیں، ان سب کو دوبارہ پڑھے، لیکن اس سے پہلے غسل کرے اور اگر کپڑوں پر جنابت کا اثر (نجاست) موجود ہو تو اسے بھی دھوئے۔ اسی بیان سے جواب واضح ہو جاتا ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.