جنابت سے غسل کرتے وقت نیت کا حکم
Question
جنابت سے غسل کرتے وقت نیت کا کیا حکم ہے؟ ایک نوجوان نے حال ہی میں شادی کی ہے اور اسے یہ علم نہیں تھا کہ غسل کے لیے نیت ضروری ہے۔ وہ یہ پوچھ رہا ہے کہ جس عرصے میں وہ بغیر نیت کے غسل کرتا رہا، کیا اس میں اس پر کوئی گناہ یا کفارہ لازم ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اگر وہ نوجوان غسل کرتے وقت دل میں غسل اور حدثِ اکبر کو دور کرنے یا جنابت سے پاکی حاصل کرنے کی نیت رکھتا تھا، چاہے زبان سے اس کا اظہار کیا یا نہیں، تو اس کا غسل صحیح ہے بشرطیکہ اس نے پورے جسم تک پانی پہنچایا ہو۔
لیکن اگر اس نے غسل کے وقت دل میں کچھ خاص نیت نہ کی ہو، مگر اس کے حالات و قرائن سے نیت کا مقصد واضح ہو، جیسے وہ نماز کے لیے پاکی حاصل کرنے کے ارادے سے غسل کرے، یا قرآن پڑھنے کے لیے، یا جماع یا احتلام کی وجہ سے غسل کرے، تو اس صورت میں بھی نیت کا مقصد پورا ہو جاتا ہے اور اس کا غسل درست ہے، اس پر کوئی حرج نہیں۔
اور اگر اس نے نیت کو بالکل بھی حاضر نہ کیا، نہ حدثِ اکبر کو دور کرنے کا قصد کیا، اور نہ ہی کوئی قرینہ ایسا موجود تھا جو نیت پر دلالت کرے، بلکہ وہ صرف صفائی یا ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے یا محض ایک عادت کے طور پر غسل کرتا رہا ہو، چاہے اس پر غسل واجب ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، تو ماضی میں جو غسل اس نے بغیر نیت کے کیے ہیں وہ درست شمار ہوں گے، اس قول پر عمل کرتے ہوئے جو بعض فقہاء نے اختیار کیا ہے۔ تاہم آئندہ کے لیے بہتر ہے کہ نیت کو حاضر رکھے تاکہ فقہاء کے اختلاف سے بچا جا سکے۔
تفصیلات:
طہارت اللہ تعالیٰ کی محبت کا سبب ہے
طہارت اللہ تعالیٰ کی محبت پانے کے اسباب میں سے ہے۔ شریعتِ مطہرہ نے طہارت کو عظیم فضیلت عطا فرمائی اور اس کے ساتھ بہت بڑے اثرات وابستہ کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴾ [البقرة: 222] (ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔) اسی طرح طہارت کو آدھا ایمان قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ» یعنی پاکیزگی نصف ایمان ہے ۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
جنابت سے غسل کا حکم
اللہ عزوجل نے خاص طور پر جنابت سے پاکی حاصل کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا﴾ ترجمہ: اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کرلو۔ (المائدة: 6) ۔فقہاء کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ جنابت سے غسل فرض ہے، اور جو شخص حالتِ جنابت میں ہو، وہ شرعی عبادات بغیر غسل کے ادا نہیں کر سکتا، جب تک کہ وہ حدثِ اکبر سے پاک نہ ہو جائے۔
امام ابو الحسن بن القَطّان رحمہ اللہ "الإقناع" (1/97، ط. الفاروق الحديثة) میں فرماتے ہیں: "اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ منی جو دافع قوت کے ساتھ نکلے اور جس سے عضوِ تناسل سست ہو جائے، چاہے وہ جماع سے نکلے یا احتلام سے یا کسی اور طریقے سے، خواہ مرد سے ہو یا عورت سے—یہ غسل کو واجب کرتی ہے۔"
اور امام نووی رحمہ اللہ "شرح صحیح مسلم" (4/36، ط. دار إحياء التراث العربي) میں فرماتے ہیں: "یہ بات جان لو کہ امت اب اس پر مجتمع ہے کہ جماع کی وجہ سے غسل واجب ہے چاہے انزال نہ بھی ہو، اور انزال کی صورت میں بھی غسل واجب ہے۔"
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے
نیت کا لغوی معنی: نیت اس ارادے کو کہا جاتا ہے جو انسان اپنے دل میں خیر یا شر کے لیے باندھتا ہے، اور اس کا مطلب "قصد" ہے۔ لفظ "نَوى" اصل میں اس رخ اور سمت کے لیے آتا ہے جسے انسان اپنا مقصود بناتا ہے؛ جیسا کہ امام خلیل فَراہیدی نے "العين" (8/394، ط. مكتبة الهلال) میں ذکر کیا ہے۔
اصطلاحی معنی: نیت سے مراد یہ ہے کہ انسان کا اپنے دل کے ساتھ اس چیز کا قصد کرنا جسے وہ اپنے فعل سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ ارادہ عزم اور ارادوں کے باب سے تعلق رکھتا ہے، نہ کہ علوم اور عقائد کے باب سے؛ جیسا کہ امام شهاب الدین قَرَافی نے "الذخيرة" (1/240، ط. دار الغرب الإسلامي) میں بیان کیا ہے۔
نیت کا مقام دل ہے ، اس پر اہلِ علم کا اجماع ہے؛ جیسا کہ شیخ الاسلام ابن حجر ہیتمی نے "تحفة المحتاج" (2/12، ط. المكتبة التجارية الكبرى) میں نقل فرمایا ہے۔
نیت کی اصل وہ فرمانِ نبوی ہے جس میں رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کو وہی ملے گا جو اس نے نیت کی»۔ اسے امام بخاری نے امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے۔
جنابت سے غسل کے وقت نیت کا حکم
فقہاء کا اس بات میں اختلاف ہے کہ غسل کے شرعاً صحیح ہونے کے لیے نیت شرط ہے یا نہیں، جمہور فقہاء؛ یعنی مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک نیت کا ہونا واجب ہے اور وہ غسل کے فرائض میں سے ہے، اس لیے نیت کے بغیر غسل درست نہیں ہوگا۔ البتہ ان کے درمیان اس کے شروع ہونے کے وقت کے بارے میں کچھ تفصیل پائی جاتی ہے۔
امام دَرْدِير مالکی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الشرح الصغير میں، امام صاوی کی حاشیہ کے ساتھ (1/166، ط. دار المعارف) بیان فرمایا: غسل کے فرائض پانچ ہیں: پہلا فرض نیت ہے، اور وہ غسل کے پہلے عضو کو دھونے کے وقت ہو گی، چاہے ابتدا شرمگاہ سے کرے یا کسی اور عضو سے، اور دل میں نیت کرے کہ فرض غسل ادا کر رہا ہے، یا حدثِ اکبر دور کر رہا ہے، یا جنابت کو رفع کر رہا ہے، یا ان چیزوں کو حلال کر رہا ہے جنہیں حدثِ اکبر نے حرام کیا ہے، مثلاً نماز کو حلال کرنے کی نیت کرے۔"
امام نووی شافعی رحمہ اللہ نے روضۃ الطالبين (1/47، ط. المكتب الإسلامي) میں نیت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: یہ (نیت) حدث سے طہارت میں فرض ہے۔"
اور امام خطیب شِربینی شافعی رحمہ اللہ نے مغنی المحتاج (1/217، ط. دار الكتب العلمية) میں لکھا: غسلِ واجب کی کم سے کم صورت، جس کے بغیر غسل صحیح نہیں ہوتا، ، دو امور پر مشتمل ہے: ایک ان میں سے (جنابت کو رفع کرنے کی نیت) ہے، یعنی اگر وہ جُنُب ہو تو اس کی حالتِ جنابت کو ختم کرنے کی نیت کرے۔"
امام ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ نے المغني (1/162، ط. مكتبة القاهرة) میں غسل کے واجبات بیان کرتے ہوئے کہا: نیت اور پورے بدن کو دھونا واجب ہے۔"
جبکہ احناف کے نزدیک غسل میں نیت واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔
امام حصکفی حنفی رحمہ اللہ نے الدر المختار (1/156، ط. دار الفكر) میں غسل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: (اس کی سنتیں) وضو کی سنتوں کی طرح ہیں، سوائے ترتیب کے۔"
امام ابن عابدین رحمہ اللہ نے اس پر حاشیہ لکھتے ہوئے فرمایا: ان کے قول وسننه (اس کی سنتیں) سے یہ ظاہر ہوتا کہ اس کیلئے کوئی واجب نہیں ہے… اور ان کے قول کسنن الوضوء (وضو کی سنتوں کی طرح) کا مطلب یہ ہے: ابتدا نیت سے کرنا، تسمیہ پڑھنا، مسواک کرنا، خلال کرنا، بدن کو ملنا اور پے در پے اعضا دھونا وغیرہ۔"
پھر مکلف شخص کی حالت جب وہ غسلِ جنابت میں نیت کرتا ہے عام طور پر تین صورتوں سے خالی نہیں ہوتی:
پہلی حالت یہ ہے کہ آدمی اپنے دل میں غسل اور رفعِ حدث یا جنابت سے پاکی کی نیت کرے، خواہ زبان سے الفاظ ادا کرے یا نہ کرے۔ اس صورت میں اگر پورے جسم پر پانی پہنچ جائے تو غسل بالاتفاق صحیح ہے، کیونکہ جسم پر پانی پہنچانا فقہاء کے نزدیک فرض ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ غسل سے پہلے کوئی نیت یا چیز زبان یا دل میں حاضر نہ کرے، لیکن اس کے ایسے قرائن پائے جائیں جو قصد اور نیت کے معنی کو پورا کرتے ہوں، مثلاً وہ اس ارادے سے غسل کرے کہ نماز ادا کر سکے یا قرآنِ مجید پڑھ سکے، یا وہ غسل کرے کیونکہ اس نے جماع کیا ہے یا اسے احتلام پیش آیا ہے، وغیرہ۔ تو یہ قرائن اس کے اس قصد پر دلالت کرتے ہیں جو دراصل حدث کو رفع کرنے ہی کا ارادہ ہے، اور اس میں نیت کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ وہ نہ نیت کرے اور نہ حدث کو دور کرنے کا ارادہ رکھے اور نہ ہی ایسے قرائن موجود ہوں جو نیت پر دلالت کرتے ہوں، بلکہ اگر اس سے اس کے فعل کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ یہ کہے کہ وہ تو محض صفائی یا ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل کر رہا ہے، یا اس لیے کہ یہ اس کی عادت ہے، چاہے اس سے غسل واجب ہونے والی کوئی چیز صادر ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ تو یہ صورت اس اختلاف کے تحت آتی ہے جس کا ذکر پہلے فقہاء کے حوالے سے کیا گیا ہے؛ جمہور فقہاء یعنی مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک اس کا غسل صحیح نہیں، جبکہ احناف کے نزدیک صحیح ہے۔
لہٰذا جس شخص کو اس تیسری صورت جیسی حالت پیش آ جائے اور وہ نیت کے وجوب سے بے خبر ہو تو اس کا غسل شرعًا درست ہے اور اس سے جنابت دور ہو جائے گی، خواہ اس نے اس کا قصد نہ بھی کیا ہو۔ یہ ان فقہاء کے قول پر عمل ہے جنہوں نے اسے جائز قرار دیا ہے، بالخصوص جبکہ شریعتِ مطہرہ کے قواعد میں یہ بات طے شدہ ہے کہ: : "جو شخص کسی ایسے مسئلے میں مبتلا ہو جس میں اختلاف پایا جاتا ہے تو وہ اس عالم کے قول پر عمل کر سکتا ہے جو اسے جائز کہتا ہے"۔ ، جیسا کہ "حاشیہ علامہ شروانی" (جلد 1، صفحہ 119، طبع: المکتبة التجارية الكبرى) میں مذکور ہے۔ مزید یہ کہ مکلفین کے افعال جب ان سے صادر ہوتے ہیں تو انہیں مجتہدین کے صحیح مذاہب اور اقوال پر محمول کیا جاتا ہے، اور جب بھی کسی عامی کا عمل ان مجتہدین میں سے کسی ایک کے قول کے مطابق ہو جو صحت یا حلت کا قائل ہو تو وہی کافی ہے اور اس پر کوئی گناہ نہیں، اس پر علما کا اتفاق ہے۔ جیسا کہ امام زین الدین ابن نجیم کی کتاب البحر الرائق (جلد 2، صفحہ 90، طبع: دار الکتاب الإسلامي) اور سابق مفتی دیارِ مصر شیخ علامہ محمد بخیت المطيعي کی کتاب الفتاوی (جلد 1، صفحہ 225، طبع: دار وهبة) میں مذکور ہے۔ تاہم آئندہ کے لیے بہتر ہے کہ غسل کے وقت نیت کو ضرور حاضر رکھا جائے تاکہ فقہاء کے اختلاف سے بچا جا سکے، کیونکہ اختلاف سے نکلنا مستحب ہے۔
خلاصہ
اس بنا پر اور سوال کے واقعہ کے مطابق: اگر وہ نوجوان غسل کرتے وقت دل میں غسل اور حدثِ اکبر کو دور کرنے یا جنابت سے پاکی حاصل کرنے کی نیت رکھتا تھا، چاہے زبان سے اس کا اظہار کیا یا نہیں، تو اس کا غسل صحیح ہے بشرطیکہ اس نے پورے جسم تک پانی پہنچایا ہو۔ لیکن اگر اس نے غسل کے وقت دل میں کچھ خاص نیت نہ کی ہو، مگر اس کے حالات و قرائن سے نیت کا مقصد واضح ہو، جیسے وہ نماز کے لیے پاکی حاصل کرنے کے ارادے سے غسل کرے، یا قرآن پڑھنے کے لیے، یا جماع یا احتلام کی وجہ سے غسل کرے، تو اس صورت میں بھی نیت کا مقصد پورا ہو جاتا ہے اور اس کا غسل درست ہے، اس پر کوئی حرج نہیں۔ اور اگر اس نے نیت کو بالکل بھی حاضر نہ کیا، نہ حدثِ اکبر کو دور کرنے کا قصد کیا، اور نہ ہی کوئی قرینہ ایسا موجود تھا جو نیت پر دلالت کرے، بلکہ وہ صرف صفائی یا ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے یا محض ایک عادت کے طور پر غسل کرتا رہا ہو، چاہے اس پر غسل واجب ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، تو ماضی میں جو غسل اس نے بغیر نیت کے کیے ہیں وہ درست شمار ہوں گے، اس قول پر عمل کرتے ہوئے جو بعض فقہاء نے اختیار کیا ہے۔ تاہم آئندہ کے لیے بہتر ہے کہ نیت کو حاضر رکھے تاکہ فقہاء کے اختلاف سے بچا جا سکے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.