وکیل کے ہاتھ میں بطور امانت ضائع ہو...

Egypt's Dar Al-Ifta

وکیل کے ہاتھ میں بطور امانت ضائع ہونے والے مال کی ضمانت کا حکم

Question

اس مال کی ضمانت کا کیا حکم ہے جو وکیل کے ہاتھ سے بطور امانت تلف ہو جائے؟ ایک شخص بیرونِ ملک اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ سفر پر تھا۔ اس کے چچا زاد نے اسے ایک موبائل فون دیا کہ وہ اسے مصر واپس جا کر اس کے والد (یعنی اُس شخص کے چچا) تک پہنچا دے۔ واپسی پر ایئرپورٹ جاتے ہوئے اس شخص کا ایک ایسا ٹریفک حادثہ پیش آیا جس میں اس کی کوئی کوتاہی نہ تھی، جس کے نتیجے میں وہ موبائل فون اور اس کی بعض دیگر اشیاء تباہ ہو گئیں۔ تو کیا شرعًا اس پر لازم ہے کہ وہ اس کے بدلے میں ویسا ہی (موبائل) خرید کر دے یا اس کی قیمت ادا کرے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اس شخص کے ہاتھ میں وہ موبائل فون جو اُسے دیا گیا تھا تاکہ وہ اُسے اپنے چچا تک پہنچائے — امانت کے طور پر تھا، اس لیے جب تک وہ اس کی حفاظت میں کسی قسم کی کوتاہی یا زیادتی نہ کرے، اس پر اس کی ضمانت لازم نہیں آتی۔
البتہ اگر اُس نے زیادتی کی ہو یا حفاظت میں کوتاہی کی ہو، اور اس پر گواہی قائم ہو جائے تو پھر اُس پر ضمان دینا لازم ہی گی، اور اُسے اس جیسا موبائل فون دینا پڑے گا۔ اور اگر دونوں فریقوں کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہو جائے اور زیادتی یا کوتاہی پر کوئی گواہی قائم نہ ہو، تو وکیل (یعنی موبائل لے جانے والے شخص) کا قول قابلِ قبول ہو گا، بشرطیکہ وہ قسم کھائے۔

تفاصیل:

امانتوں کی حفاظت اورانہیں  ان کے اصل مالکوں کو واپس کرنے کی فرضیت کا بیان

امانت کی حفاظت اور اس کی نگہداشت بلند ترین اخلاق اور اعلیٰ صفات میں سے ہے، اور اسے اس کے اصل مالک کو واپس کرنا دین میں ایک فرض ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا﴾ ترجمہ: "بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل (حق داروں) کو ادا کرو۔" [النساء: 58]۔

امام بیضاوی رحمہ اللہ نے "أنوار التنزيل" (جلد 2، ص 79، دار إحیاء التراث العربی) میں فرمایا: ''یہ خطاب تمام مکلفین کو عام ہے، اور امانت کی تمام اقسام کو شامل ہے"۔

امام قرطبی رحمہ اللہ نے "الجامع لأحكام القرآن" (جلد 14، ص 253، دار الكتب المصرية) میں فرمایا: ''صحیح قول کے مطابق امانت دین کے تمام احکام و ذمہ داریوں کو شامل ہے، اور یہی جمہور علما کا موقف ہے"۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی ہمیں خطبہ دیتے، تو ضرور یہ ارشاد فرماتے: »لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ، وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ«
یعنی: ''جس کے پاس امانت داری نہیں، اس کا کوئی ایمان نہیں، اور جو وعدہ کا پابند نہیں، اس کا کوئی دین نہیں۔" اس حدیث کو امام احمد، ابویعلی، ابن خزیمہ، ابن حبان، اور بیہقی رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے۔

پوچھے گئے معاملے کی شرعی نوعیت (تکییف)

سوال میں مذکور معاملے کو شرعی لحاظ سے "وکالت" پر محمول کیا جائے گا، کیونکہ اس میں ایک شخص کو موبائل فون دے کر اس ذمہ داری کے ساتھ بھیجا گیا کہ وہ اسے اس شخص (یعنی اس کے چچا) تک پہنچائے جسے موکل نے مقرر کیا ہے۔ وکالت کی تعریف یہ ہے کہ "کوئی شخص کسی معلوم تصرف میں کسی دوسرے کو اپنی جگہ قائم کرے۔" اور ایک اور قول کے مطابق: "اپنا کوئی معاملہ اُس شخص کے سپرد کر دینا جسے تم نے وکیل بنایا ہو، اس اعتماد کے ساتھ کہ وہ اسے انجام دے گا — خواہ تم یہ سہولت کے طور پر کرو یا اس لیے کہ تم خود اس پر قادر نہیں ہو۔" جیسا کہ امام بابرتیؒ کی کتاب العناية (جلد 7، ص 499، دار الفكر) اور امام ابن ہمامؒ کی کتاب فتح القدير (جلد 7، ص 500، دار الفكر) میں مذکور ہے۔

وکیل کے ہاتھ میں بطور امانت ضائع ہونے والے مال کی ضمانت کا حکم

جمہور فقہاء — یعنی احناف، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ — کا اس پر اتفاق ہے کہ وکیل اس مال میں امین ہوتا ہے جو اسے موکل (جس نے وکیل بنایا) کی طرف سے دیا گیا ہو، خواہ وہ مال ہو یا کوئی قیمت والی چیز۔ لہٰذا اگر وہ مال اس کے ہاتھ میں تلف یا ضائع ہو جائے، تو اس پر ضمان (یعنی تاوان دینا) واجب نہیں ہوگا، جب تک کہ وہ اس کی حفاظت میں زیادتی (تعدی) یا کوتاہی نہ کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وکیل، مال رکھنے اور اس میں تصرف کرنے کے معاملے میں موکل کا نائب ہوتا ہے، چنانچہ اس کا ہاتھ گویا موکل کا ہاتھ ہے، اور جو چیز وکیل کے ہاتھ میں ضائع ہو، وہ ایسے ہی ہے جیسے وہ خود موکل کے ہاتھ میں ضائع ہو گئی ہو، نیز وکالت بنیادی طور پر تعاون اور سہولت پر مبنی ایک معاہدہ ہے، اور اگر ہر چیز کی ضمان لازم کی جائے تو یہ وکالت کے مزاج کے خلاف ہو گا، اور لوگوں کو وکیل بننے سے روکنے کا سبب بنے گا۔

امام شمس الأئمة سرخسی حنفی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب المبسوط (جلد 14، صفحہ 40، دار المعرفة) میں فرمایا: ''وکیل اس مال میں امین ہوتا ہے جو موکل نے اسے دیا ہو۔"

اسی طرح امام قرافی المالکی رحمہ اللہ نے الذخيرة (جلد 8، صفحہ 15، دار الغرب الإسلامي) میں فرمایا: ''وکیل، موکل کے حق میں امین ہوتا ہے، اس لیے وہ صرف تبھی ضامن ہوتا ہے جب وہ زیادتی (تعدی) کرے یا کوتاہی کرے۔"

امام نووی الشافعی رحمہ اللہ نے روضۃ الطالبین (جلد 4، صفحہ 325، المکتب الإسلامی) میں فرمایا: وکالت کا حکم امانت ہی کا ہوتا ہے، چنانچہ وکیل کا ہاتھ امانت دار کا ہاتھ شمار ہوتا ہے، لہٰذا وہ اس چیز کا ضامن نہیں ہوتا جو اس کے ہاتھ میں بغیر کسی کوتاہی کے ضائع ہو جائے۔ "

اور امام ابن مفلح الحنبلی رحمہ اللہ نے المبدع (جلد 4، صفحہ 347، دار الكتب العلمية) میں لکھا: وکیل امین ہوتا ہے، اس لیے اگر کوئی چیز اس کے ہاتھ میں بغیر کسی کوتاہی کے تلف ہو جائے تو وہ اس کا ضامن نہیں ہوتا، کیونکہ وہ مالك کا نائب ہوتا ہے، چاہے وہ مال رکھنے کے اعتبار سے ہو یا تصرف کے اعتبار سے؛ اس لیے اس کے ہاتھ میں مال کا ضائع ہونا ایسا ہی ہے جیسے وہ مال خود مالک کے ہاتھ میں ضائع ہوا ہو۔

اسی طرح اگر وکیل اور موکل کے درمیان اختلاف ہو جائے کہ چیز کیسے تلف ہوئی:

وکیل کہے: "امانت میرے ہاتھ سے بغیر کسی زیادتی یا کوتاہی کے ضائع ہو گئی، اس لیے مجھ پر ضمان لازم نہیں۔"

موکل کہے: "نہیں، بلکہ تم سے زیادتی یا کوتاہی ہوئی ہے، اس لیے تم پر ضمان لازم ہے۔"

تو اس صورت میں شرعاً وکیل کی بات قابلِ قبول ہو گی، بشرطیکہ وہ قسم کھائے۔ اس پر کوئی ضمان (تاوان) لازم نہیں آئے گا، اور نہ ہی اس سے گواہ لانے کا مطالبہ کیا جائے گا، کیونکہ اس معاملے میں گواہی کا مہیا ہونا دشوار ہوتا ہے، اور اگر ایسی صورتوں میں وکیل پر ضمان لازم کیا جانے لگے تو لوگ امانت رکھنے سے گریز کرنے لگیں گے، حالانکہ زندگی میں اس کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔

امام علاء الدین الكاسانی رحمہ اللہ نے بدائع الصنائع (جلد 6، صفحہ 34، دار الكتب العلمية) میں فرمایا: وکیل کے ہاتھ میں جو مال ہوتا ہے — خواہ وہ وکالت خرید و فروخت میں ہو، قرض یا چیز وصول کرنے یا ادا کرنے میں — وہ امانت ہوتا ہے، بالکل ایسے جیسے وہ کسی کے پاس بطور ودیعت (امانتاً رکھوائی گئی چیز) ہو؛ کیونکہ وکیل کا ہاتھ موکل کی نیابت کا ہوتا ہے، جیسے مودَع (امانت دار) کا ہاتھ ہوتا ہے۔ لہٰذا وکیل پر اسی صورت میں ضمان لازم آئے گی جس صورت میں ودیعت دار پر لازم آتی ہے، اور وہ اس صورت میں بری الذمہ ہوگا جس میں ودیعت دار بری ہوتا ہے۔ نیز ضمان سے بری ہونے کے دعوے میں وکیل کا قول معتبر ہوگا۔

امام الدَّردير المالكي رحمہ اللہ نے الشرح الصغير (جلد 3، صفحہ 519، دار المعارف) میں فرمایا: (اور وکیل کی بات کو اس کی قسم کے ساتھ قبول کیا جائے گا) جب وہ اس مال کے تلف ہونے کا دعویٰ کرے جس پر اسے وکیل بنایا گیا تھا؛ کیونکہ وہ اس پر امین ہوتا ہے۔"

اسی طرح امام خطیب شربینی الشافعی رحمہ اللہ نے مغني المحتاج (جلد 3، صفحہ 262، دار الكتب العلمية) میں فرمایا: (مال کے تلف ہونے کے بارے میں وکیل کا قول، اس کی قسم کے ساتھ قابلِ قبول کیا جاۓ گا)، کیونکہ وہ  مودع (جس کے پاس ودیعت ہوتی ہے) کی طرح اس پر امین ہوتا ہے۔"

امام بُهوتی حنبلیؒ "شرح منتهى الإرادات" (2/202، ط: عالم الکتب) میں فرماتے ہیں: "وکیل کی بات کو اس کی قسم کے ساتھ سچ مانا جائے گا، جب وہ کسی مال یا اس کی قیمت کے تلف ہو جانے کا دعویٰ کرے، اور موکل اس کی مخالفت کرے کہ وہ تلف نہیں ہوا، جیسا کہ ودیعت میں ہوتا ہے۔ اسی طرح، اگر موکل وکیل پر کوتاہی کا دعویٰ کرے، تو وکیل کے انکار کو اس کی قسم کے ساتھ معتبر مانا جائے گا؛ کیونکہ وہ (وکیل) امین ہوتا ہے، اور اس سے دلیل (گواہ وغیرہ) پیش کرنے کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ ایسے امور میں سے ہے جن پر گواہی کا فراہم ہونا دشوار ہوتا ہے،  اور اگر ایسا لازم کر دیا جائے تو لوگ امانت داری اور وکالت جیسے ضروری معاملات سے گریز کریں گے، حالانکہ ان کی معاشرتی ضرورت بہت زیادہ ہے۔

خلاصہ:

مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں اور سوال میں مذکور واقعے کے مطابق: جس شخص کے پاس موبائل فون تھا تاکہ وہ اسے اپنے چچا تک پہنچائے — اس کے ہاتھ میں وہ موبائل بطور امانت تھا۔ لہٰذا اگر اس نے اس کی حفاظت میں کوئی زیادتی (تعدی) یا کوتاہی نہیں کی، اس پر ضمان (تاوان) لازم نہیں آتا۔ لیکن اگر اس سے زیادتی یا کوتاہی ثابت ہو جائے اور اس پر گواہی قائم ہو جائے تو پھر وہ ضامن ہوگا اور اسے ایسا ہی دوسرا موبائل دینا ہوگا۔ اور اگر وکیل (جس نے موبائل لے جانا تھا) اور موکل (جس نے دیا تھا) کے درمیان اختلاف ہو جائے، اور زیادتی یا کوتاہی پر کوئی گواہی قائم نہ ہو،تو وکیل کی بات معتبر مانی جائے گی، بشرطیکہ وہ قسم کھائے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas