میت کی کپڑوں کو چالیس دن سے پہلے جل...

Egypt's Dar Al-Ifta

میت کی کپڑوں کو چالیس دن سے پہلے جلا دینے کا حکم

Question

میت کے کپڑے چالیس دن سے پہلے جلا دینے کا کیا حکم ہے؟ میری بہن کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے، اور کچھ لوگوں نے میری بہن کو کہا ہے کہ اسے شوہر کے کپڑے چالیس دن سے پہلے جلا دینے چاہئیں، شرعی لحاظ سے اس کا حکم کیا ہے؟

Answer

الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛ میت کے کپڑوں کی حفاظت کرنا شرعاً واجب ہے، اور یہ ترکہ شمار ہوتے ہیں اور ان پر وارثوں کا حق ہے۔ ان میں سے جو وارث چاہے ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، یا پھر تمام وارثوں کی اجازت سے انہیں صدقہ کیا جا سکتا ہے تاکہ ایسے ضرورت مندوں کو دیا جائے جو ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔ شرعاً ان کپڑوں کو جلانا یا ضائع کرنا بالکل حرام ہے، اور ان کو جلانے والا ان کپڑوں کی قیمت اپنے مال سے ادا کرنے کا ذمہ دار ہوگا، خصوصاً اس صورت میں جب میت کے ترکے میں ایسے کم عمر بچے موجود ہوں جو وراثت یا وصیتِ واجبہ کے مستحق ہوں۔

مال کو ضائع کرنے اور ہلاک کرنے کی منع کرنا

اللہ تعالیٰ نے مال کو انسان کی دینی اور دنیوی ضروریات کے قائم رہنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ اسی لیے اس نے اس مال کی حفاظت کرنے اور اسے جائز جگہوں پر ایسے طریقے سے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے جو انسان کی حالت اور مالی گنجائش—چاہے خوشحال ہو یا تنگ دست —کے مطابق ہو۔اور اللہ تعالی نے مال ضائع کرنے یا تباہ کرنے سے منع فرمایا ہے، چاہے کسی بھی طریقے سے ہو—خواہ اسے ایسے کاموں پر خرچ کرنا ہو جن میں نہ دینی فائدہ ہو نہ دنیوی، یا کسی ناجائز مصرف میں لگانا ہو، یا اسے مختلف صورتوں میں تباہ کرنا ہو، جیسے جلا دینا، برباد کرنا، فضول خرچی کرنا یا اسراف کرنا۔

مغیرہ بن شعبة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا: "اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین چیزوں کو ناپسند فرماتا ہے: فضول بحث و مباحثہ، مال کو ضائع کرنا، اور زیادہ سوال کرنا"۔ (متفق علیہ)

میت کے کپڑوں کا جلانے کا حکم

کسی بھی شخص کے کپڑے—ان کی تمام اقسام اور شکلوں سمیت—شرعاً قابلِ قدر مال شمار ہوتے ہیں، چاہے نئے ہوں یا پرانے، پہنے ہوئے ہوں یا غیر پہنے ہوئے۔ کیونکہ مالیت اور قابلِ تلافی ہونے کی بنیاد یہ ہے کہ وہ چیز شرعاً اور عرفاً قابلِ استعمال ہو، جیسا کہ علامہ سرخسی حنفی نے "المبسوط" (15/125، ط. دار المعرفة) میں لکھا ہے۔ اور ان کی ضمانت قیمت کے اعتبار سے ہوتی ہے نہ کہ مثیل کے اعتبار سے، جیسا کہ علامہ الکاسانی نے "بدائع الصنائع" (2/284، ط. دار الكتب العلمية) میں فرمایا ہے۔

فقہاء نے متوفی کے چھوڑے ہوئے کپڑوں کی مالی حیثیت اور ان کا تَرِکَہ میں شامل ہونا واضح طور پر بیان کیا ہے، اور یہ بھی کہ ان پر وصیت و میراث کے احکام بھی جاری ہوتے ہیں۔ اسی سلسلے میں امام الحدادی حنفی نے "الجوهرة النيرة" (2/299، ط. المطبعة الخيرية) میں اس مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے، جہاں کسی شخص نے اپنے کپڑوں کے ایک تہائی حصے کی وصیت کی ہو اور بعد میں دو تہائی کپڑے ضائع ہوجائیں اور صرف ایک تہائی باقی بچے ہوں، فرمایا: “اگر کپڑے مختلف قسموں کے ہوں تو انہیں ایک دوسرے میں بدل کر تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا جو حصہ باقی رہ گیا ہے، وصیت پانے والا اسے پورا لینے کا حق نہیں رکھتا، کیونکہ وصیت اس باقی ماندہ حصے پر لاگو نہیں ہوتی۔ اس لیے وصیت لینے والا اس باقی حصے کے ایک تہائی سے زیادہ کا حق دار نہیں ہوگا۔”

"شرح الإمام الخرشي المالكي على مختصر خليل" (8/ 174، ط. دار الفكر للطباعة) میں آیا ہے: [کسی نے اگر کسی کو اپنے کپڑوں کی وصیت کی، یعنی اپنے جسم کے غیر مخصوص کپڑوں کی ، پھر وصیت کرنے والے نے وہ کپڑے بیچ دیے اور ان کی جگہ اسی قسم یا کسی اور قسم کے کپڑے رکھ لیے تو وصیت کے مستحق کو وہ نئے رکھے گئے کپڑے ملیں گے]۔

اور امام البغوي الشافعی نے "التهذيب" (5/ 112، ط. دار الكتب العلمية) میں فرمایا: [اگر کسی نے وصیت کی کہ اسے قیمتی کپڑوں میں کفن کیا جائے تو قرض داروں کے حقوق مقدم ہونے کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

اور علامہ الرحيباني الحنبلی نے "مطالب أولي النهى" (4/ 494، ط. المكتب الإسلامي) میں فرمایا: [(یا اگر) وصیت کے وقت اس کے پاس صرف ایک غلام تھا، تو وہ وصیت کے مستحق کیلئے متعین ہو جائے گا، کیونکہ اس کے علاوہ وصیت کا کوئی محل نہیں؛ اسی طرح کسی کے ریوڑ میں سے ایک بکری یا بھیڑ، یا اس کے کپڑوں میں سے ایک مخصوص لباس، یا اسی نوع کی چیزوں پر بھی یہی حکم لاگو ہوتا ہے]۔

یہ نصوص بالکل واضح طور پر یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کسی شخص کے فوت ہونے کے بعد جو کپڑے وہ چھوڑتا ہے، وہ مالی حیثیت رکھتے ہیں اور ان پر میراث اور وصیت کے احکام لاگو ہوتے ہیں۔ اسی لیے انہیں جلانا—جیسا کہ ہمارے مسئلے میں ہے—یا کسی بھی طریقے سے برباد کرنا شرعاً حرام ہے، اور اس میں مال ضائع کرنے کا وہی مفہوم شامل ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ بلکہ جو شخص ایسا کرے،وہ ان کپڑوں کی قیمت اپنے مال سے ادا کرنے کا ذمہ دار ہوگا، خصوصاً جب کوئی وارث اس کا مطالبہ کرے یا اس صورت میں جب میت کے ترکے میں ایسے کم عمر بچے وارث موجود ہوں جو وراثت یا وصیتِ واجبہ کے حق دار ہوں۔

اور یہی فتویٰ ہے جو امام ابن رشد الجد مالکی نے "البيان والتحصيل" (13/ 135، ط. دار الغرب الإسلامي) میں دیا، جہاں انہوں نے اس مسئلے میں وضاحت کی کہ اگر بعض ورثاء نے غم کی وجہ سے میت کے کپڑوں کو نقصان پہنچایا یا پھاڑ دیا تو وہ اس کے ضامن ہوں گے۔ انہوں نے کہا: [جو لوگ میت کے کپڑوں کو پھاڑ کر خراب کریں، وہ اس کے ضامن ہوں گے۔۔۔۔ اگر وصی نے انہیں یہ کام کرنے دیا اور کرنے والے چھوٹے ہوں تو وصی ضامن ہو گا کیونکہ اس نے انہیں کپڑے پھاڑنے دیے تھے، لیکن اگر بڑے ہوں تو اس پر کچھ لازم نہیں؛ کیونکہ وہ خود ہی ضامن ہیں جو انہوں نے خراب کیا]۔

اور جب یہ بات واضح ہو گئی تو ظاہر ہوتا ہے کہ جو کچھ بعض لوگوں نے مذکورہ بیوی کو کہا—جیسا کہ سوال میں بیان ہوا ہے—اس کا شرعی کوئی جواز نہیں، بلکہ یہ ان قطعی دلائل کے منافی ہے جو یہ صراحت کرتے ہیں کہ یہ کپڑے وصیت اور وراثت میں شامل ہیں، اور حسبِ جنس اور قسم کپڑے فوت ہونے کے وقت زندہ وارثین میں تقسیم کیے جائیں گے، جیسا کہ فقہا نے ان کے احوال میں بیان کیا ہے۔ اور ایسے معاملات میں احتیاط برتنا ضروری ہے جو عوام میں مرنے والوں کے کپڑوں کے ساتھ برتاؤ کے حوالے سے رائج ہیں۔

اور یہی وہ بات ہے جس کی طرف امام ابن الحاج المالکی نے توجہ دلائی ہے، -جب انہوں نے اس مسئلے میں بحث کی کہ مرنے والے کے وہ کپڑے جو اس کی زندگی میں پہنے جاتے تھے، تیسرے دن دھوئے جائیں، انہوں نے "المدخل" (3/ 276، ط. دار التراث) میں فرمایا: "اور اس بات سے بھی خبردار رہنا چاہیے کہ بعض لوگوں نے جو یہ نئی بات گھڑ لی ہے کہ میت کے کپڑے صرف تیسرے دن ہی دھوئے جائیں، اور وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ اس سے قبر کا عذاب ٹل جاتا ہے—تو یہ محض من گھڑت بات ہے اور شریعتِ مطہرہ پر افترا ہے۔"

خلاصہ
اس بنیاد پر اور سوال میں بیان شدہ صورتِ حال کے مطابق: میت کے کپڑوں کی حفاظت کرنا شرعاً واجب ہے، اور یہ ترکہ شمار ہوتے ہیں اور ان پر وارثوں کا حق ہے۔ ان میں سے جو وارث چاہے ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، یا پھر تمام وارثوں کی اجازت سے انہیں صدقہ کیا جا سکتا ہے تاکہ ایسے ضرورت مندوں کو دیا جائے جو ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔ شرعاً ان کپڑوں کو جلانا یا ضائع کرنا بالکل حرام ہے، اور ان کو جلانے والا ان کپڑوں کی قیمت اپنے مال سے ادا کرنے کا ذمہ دار ہوگا، خصوصاً اس صورت میں جب میت کے ترکے میں ایسے کم عمر بچے موجود ہوں جو وراثت یا وصیتِ واجبہ کے مستحق ہوں۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas