نماز میں نبی اکرم ﷺ پر صیغۂ خطاب ک...

Egypt's Dar Al-Ifta

نماز میں نبی اکرم ﷺ پر صیغۂ خطاب کے ساتھ سلام بھیجنے کا حکم

Question

تشہد کی عبارت کے متعلق سوال ہے: بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد تشہد میں یہ کہنا چاہیے: "السلام على النبي"، اور "السلام عليك أيها النبي" کہنا نمازیوں کی عام غلطی ہے، ان کا گمان یہ ہے کہ خطاب کی "کاف" رسول اللہ ﷺ کی دنیوی زندگی میں مناسب تھی، اور آپ ﷺ کے وصال کے بعد اس صیغے میں تبدیلی آگئی ہے، لہٰذا ہر نمازی کو "السلام عليك أيها النبي" کی بجاۓ "السلام على النبي" کہنا چاہیے۔ اور اس قائل کا گمان ہے کہ یہ تبدیلی ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد اُن کی وصیت پر کی تھی، اور یہ کہ انھوں نے صحابہ کرام کو اس وصیت سے آگاہ کیا تاکہ وہ اس پر عمل کریں۔

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
تشہد میں «السلام عليك أيها النبي» کہنا نبی کریم ﷺ سے مرفوعاً متواتر طور پر ثابت صیغہ ہے، جس کے ذریعے پوری امت کو خطاب کیا گیا ہے۔ یہ عبارت ہر زمان و مکان کے لیے عام ہے، اور کسی خاص حالت تک اس کو محدود کرنا بغیر کسی شرعی دلیل کے تخصیص ہے، جو قابلِ قبول نہیں۔ اگرچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان تشہد کی عبارات میں کچھ اختلاف رہا ہے، لیکن اس بات پر ان سب کا اتفاق ہے کہ نبی کریم ﷺ پر سلام بھیجنے کا صیغہ یہی ہوگا: "السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ"۔ اور یہ ایسا ةمتواتر مقام ہے جس میں حدیثِ شریف سے معمولی شغف رکھنے والا بھی شک نہیں کر سکتا، اور اسی بنیاد پر اکثر اہلِ علم، اور اُن میں سرِفہرست چاروں آئمہ کرام نے "السلام على النبي" والی روایت پر عمل نہیں کیا؛ کیونکہ وہ موقوف ہے، اور سب نے نبی اکرم ﷺ سے مروی متواتر حدیث پر عمل کیا، جو خطاب کے صیغے کے ساتھ آپ ﷺ پر سلام بھیجنے پر مشتمل ہے: «السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ».

تفصیل:

نماز میں نبی کریم ﷺ کو خطاب کے صیغے سے سلام کہنے کا حکم
تشہد میں "السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ" کا صیغہ کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے، یہاں تک کہ یہ تواتر کے درجے کو پہنچ چکا ہے، اور آئمہ اربعہ اور امت کے جمہور علماء، سلف ہوں یا خلف، سب نے اسی پر عمل کیا ہے۔ بلکہ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے؛ چنانچہ وہ اپنی کتاب الفِصل في الملل والأهواء والنحل (جلد 1، صفحہ 76، مطبوعہ مکتبہ الخانجی) میں لکھتے ہیں: ''اسی طرح وہ قول جس پر لوگوں کا اجماع ہے اور جس پر نص (شرعی دلیل) وارد ہوئی ہے، کہ ہر نمازی، فرض ہو یا نفل، یہ کہے: السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه۔"

اس کی وجہ یہ ہے کہ احادیثِ تشہد کی روایتیں بعض الفاظ پر متفق اور بعض میں مختلف ہیں، تو جن الفاظ پر روایتیں متفق ہوں، وہ متواتر کے درجے میں آ جاتے ہیں۔ اور ان ہی متفق علیہ الفاظ میں سے ایک "السلام عليك أيها النبي" کا جملہ ہے۔

اسی تواتر کی طرف امام ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ نے شرح معاني الآثار (جلد 1، صفحہ 265) میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ''نبی کریم ﷺ سے اس بارے میں روایتیں تواتر کے ساتھ منقول ہیں، اور ان کی مخالفت میں کچھ بھی وارد نہیں ہوا؛ لہٰذا ان کی مخالفت مناسب نہیں، نہ ہی ان کے علاوہ کسی روایت کو لینا درست ہے، اور نہ ہی ان میں کسی چیز کا اضافہ کرنا۔"

جن صحابۂ کرام سے حدیثِ تشہد اس عبارت » السلام عليك أيها النبي« کے ساتھ روایت کی گئی ہے، ان میں سیدنا ابو بکر صدیق، عمر بن خطاب، عبد اللہ بن مسعود، ابو موسیٰ اشعری، جابر بن عبد اللہ (اگر ان کی روایت محفوظ ہو)، عبد اللہ بن عمر، ابو سعید خدری، ابن عباس، سیدہ عائشہ، سلمان فارسی، معاویہ بن ابی سفیان، کعب بن عجرہ، اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ یہ تمام صحابہ اپنی روایت میں یہی الفاظ بیان کرتے ہیں: (السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ( یا )سَلَامٌ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ(۔ ان تمام روایتوں کی اسناد یا تو صحیح ہیں یا حسن، اور ان سب روایتوں کا مجموعہ درجہ تواتر کو پہنچ جاتا ہے۔

اسی طرح یہ تشہد کی عبارت تابعین اور تبع تابعین سے بھی اسی صیغے میں منقول ہے؛ جیسے علقمہ بن قیس نخعی، حسن بصری، طاؤس، ابراہیم نخعی اور دیگر بزرگوں سے، اور یہ ان سے قطعی طور پر ثابت ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تابعین نے یہ تشہد صحابۂ کرام سے سیکھا، اس پر عمل کیا اور اپنے بعد والوں کو بھی اسی طرح سکھایا۔

امام عینیؒ نے "شرح بخاری" (9/374) میں فرمایا: ''تشہد کے باب میں حضرت حسین بن علی، طلحہ بن عبیداللہ، انس، ابو ہریرہ، فضل بن عباس، امِّ سلمہ، حذیفہ، مطلب بن ربیعہ، ابنِ ابی أُوفی رضی اللہ عنہم سے روایات وارد ہوئی ہیں۔ انھوں نے کہا: تشہد کی روایت کرنے والے صحابہ کی مجموعی تعداد چوبیس (24) ہے۔" ــ انتهى۔

رہی بات اس روایت کی جو امام طبرانی نے اپنی کتاب "المعجم الأوسط" (حدیث 218) میں نقل کی ہے: عبد الجبار، عون بن عبد الله بن عتبہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میرے والد نے مجھے کچھ کلمات سکھائے جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں سکھائے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا گمان ہے کہ انہیں رسول اللہ ﷺ نے یہ کلمات سکھائے:
»التحيات الصلوات الطيبات المباركات لله، السلام على النبي ورحمة الله وبركاته، والسلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله«تو امام طبرانی نے اس روایت کے متعلق فرمایا:
"یہ حدیث عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے واسطے سے صرف اسی سند سے روایت کی گئی ہے، اور اسے صرف ابن لہیعہ نے نقل کیا ہے۔" اور اس روایت کی سند ضعیف راویوں کی کڑی پر مشتمل ہے، لہٰذا اس سے کوئی حجت قائم نہیں ہوتی، اور اس کا متن بھی منکر ہے، جب کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے جو روایت محفوظ ہے، وہ وہی ہے جو پہلے بیان کی گئی۔

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ والی جو حدیث ہے، اسے ان کے کئی شاگرودں نے ان سے روایت کیا ہے، اور ان کی تمام روایات میں یہی عبارت آئی ہے: "السلام عليك أيها النبي"۔ چنانچہ جن حضرات نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کی اور جن کی روایت میں "السلام عليك أيها النبي" کے الفاظ موجود ہیں، ان میں شامل ہیں: ابو وائل شقیق بن سلمة (جن کی روایت صحیحین اور سنن میں منقول ہے)، الأسود بن یزید، ابو الأحوص عوف بن مالک، علقمہ بن قیس، ابو عبد الرحمن السُّلَمی، عمرو بن میمون، عامر الشعبی (اگرچہ انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں کیا)، سعید بن فیروز، ابو الكنود الأَزدی، اور ابو عبیدہ بن عبد اللہ بن مسعود، ان کے اپنے والد سے سماع میں اختلاف ہے۔

یہ دس افراد ہیں جنہوں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کی ہے، اور ان سب نے اپنے روایات میں یہی کہا: "السلام عليك أيها النبي"۔ ان میں سے علقمہ اور الاسود ہیں، جو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ امام علی بن مدینی نے فرمایا: "عبد اللہ کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے افراد علقمہ، الاسود، عَبِیدہ، اور حارث ہیں۔"

یہ حدیث ابو معمر عبد اللہ بن سخبرہ نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی طرح روایت کی ہے، سوائے یہ کہ کبھی وہ اس میں یہ اضافی الفاظ بھی ذکر کرتے ہیں: [وہ ہمارے درمیان موجود تھے، پھر جب آپ ﷺ  وصال فرما گئے، ہم نے کہا: السلام – یعنی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر]، اور کبھی یہ اضافہ نہیں ذکر کرتے۔ یہ حدیث اس اضافے کے ساتھ، امام بخاری نے نقل کی ہے، اور یہ الفاظ بھی بخاری کے ہیں (رقم: 5910) ہے، ابن ابی شیبہ (رقم: 2986)، احمد (1/ 414)، اور ابو یعلٰی (رقم: 5347) سب نے اسے سِیف بن سلیمان کے طریق سے انوں نے مجاہد سے، اور انہوں نے ابو معمر سے روایت کی ہے۔ نیز نسائی نے اپنی "الصغری" (رقم: 1171) اور "الکبریٰ" (رقم: 759) میں، اور بزار (رقم: 1799) نے بھی اس روایت کو سِیف کے طریق نقل کیا ہے، لیکن ان میں اضافی الفاظ ذکر نہیں کیے۔ اسی طرح، طبرانی (رقم: 9937) اور دارقطنی (1/ 354) نے بھی اسے ایک اور ضعیف سند کے ساتھ عبد الوہاب ابن مجاہد  سے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے ابو معمر سے بغیر اضافی الفاظ کے روایت کی ہے۔

تو ابو معمر عبد اللہ بن سَخبَرة نے اس روایت میں یہ اضافہ کیا ہے جسے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دیگر شاگردوں میں سے کسی نے بیان نہیں کیا۔ اور اس (اضافہ) کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ثقہ راوی کا اضافہ ہے، اس لیے قابلِ قبول ہے، لیکن چونکہ یہ موقوف ہے، اس لیے اس کا معارضہ اُس مرفوع روایت سے نہیں کیا جا سکتا جسے خود حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نقل کیا اور بیان کیا کہ انہوں نے یہ نبی کریم ﷺ سے اس طرح سیکھا جیسے قرآن کی کوئی سورت سیکھی جاتی ہے، اور پھر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ لوگوں کو وہی تشہد سکھاتے رہے، اور ان کے شاگرد بھی—جن میں سرفہرست حضرت علقمہ بن قیس نخعی رضی اللہ عنہ ہیں—اسی کو لوگوں کو سکھاتے رہے، نہ اس میں کوئی تبدیلی کی، اور نہ ہی ابن سَخبَرَة کی بیان کردہ اضافی الفاظ کا ذکر کیا۔ پھر فقہاءِ کوفہ نے وہی طریقہ اختیار کیا جو حضرت ابن مسعود کے شاگردوں نے جاری رکھا تھا، اور انہوں نے ابن سخبرہ کی روایت کے مقابلے میں اسی پر عمل کیا۔ پس امام ابو حنیفہ اور ان کے أصحاب رحمہم اللہ نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت شدہ مرفوع تشہد کو اختیار کیا، جس میں «السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ» آیا ہے، اور حنبلی علماءِ کرام نے بھی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے تشہد کو اپنایا۔ اگرچہ باقی فقہاء نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے علاوہ دیگر صحابہ کے تشہد کو اختیار کیا، تاہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ تشہد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کے صیغے سے سلام پیش کیا جائے، یعنی: «السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ».

علامہ شیخ ملا علی قاری نے ابو معمر کی روایت پر ایک احتمال ذکر کیا ہے جس کی بنا اس سے استدلال کے لیے اسے ساقط کر دیا، کیونکہ اصول یہ ہے کہ "جس پر احتمال وارد ہو جائے، اس سے استدلال ساقط ہو جاتا ہے"۔ انہوں نے اپنی کتاب "شرح مشکاۃ المصابیح" (2/ 734، ط. دار الفکر) میں فرمایا: [ابن مسعود کا قول: "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں یہ کہتے تھے: السلام عليك أيها النبي، اور جب آپ کاوصال ہو گیا تو ہم نے کہا: ''السلام على النبي'' یہ ابو عوانہ کی روایت ہے، اور بخاری کی روایت اس سے زیادہ صحیح ہے، جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ قول ابن مسعود کا نہیں تھا، بلکہ یہ راوی کا فہم تھا، اور اس کے الفاظ یہ ہیں"فلما قبض قلنا: ''السلام، یعنی: على النبي"، یہاں "قلنا السلام، " کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ہم نے جو رسول اللہ کی زندگی میں کہا تھا، اسے جاری رکھا، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ خطاب سے رک جانے کی بات کر رہے ہوں، اور جب لفظ میں احتمال ہو تو اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا]۔

جبکہ اس صورت میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس بات کا تعلق ثابت کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس میں احتمال موجود ہے۔ مجموعی طور پر تمام احادیث اور آثار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ اور تابعین سے تشہد میں متفقہ طور پر عبارت «السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ» آئی ہے۔ حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے جو موقوف روایات آئی ہیں جن میں تشہد میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بغیر صیغہ خطاب کے آیا ہے، اس سے کوئی تضاد نہیں ہے۔ کیونکہ حضرت سیدنا ابن عمر  رضی اللہ عنہ اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی موقوفًا سلام خطاب کے ساتھ ثابت ہے جو کہ مرفوع سے ہم آہنگ ہے اور جو روایت مرفوع کے موافق ہو، وہ اس سے زیادہ ترجیح رکھتی ہے جو اس کے مخالف ہو، اور جب موقوف روایت مرفوع سے متضاد ہو، تو وہ مرفوع کے مقابلے میں مضبوط نہیں ہو سکتی، اور نہ ہی اس کی تخصیص یا نسخ کر سکتی ہے؛ کیونکہ اصول فقہ میں یہ قاعدہ ہے: "جب راوی اپنی روایت کے خلاف راۓ رکھے، تو اعتبار اس کی روایت کا ہوگا، نہ کہ اس کی راےٌ کا"؛ چنانچہ علامہ شوکانی رحمہ اللہ "ارشاد الفحول" (ص: 78) میں فرماتے ہیں: [ہم اس چیز کے پابند ہیں جو خبر کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے، نہ کہ اس کے جو راوی نے خود سمجھا ہو]۔

امام طحاوی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوع اور موقوف روایات میں اختلاف کے بارے میں اسی طرح کے موقف کی وضاحت کی ہے۔ امام طحاوی نے یہ کہا کہ جو مشہور اور محفوظ روایت ہے وہ اس موقوف روایت سے بہتر ہے جس کے الفاظ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ امام طحاوی نے فرمایا (1/ 264): [یہ اولیٰ ہے؛ کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور  آپ رضی اللہ عنہ نے یہ تشہد مجاہد کو سکھایا گیا تھا، تو یہ ناممکن ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے وہ روایت چھوڑ دی ہو جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی تھی اور دوسری روایت اختیار کی ہو]۔ پھر امام طحاوی نے (1/ 265) میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مشہور روایت کو ترجیح دیتے ہوئے فرمایا: [اور تشہد میں وہی صیغہ اختیار کرنا زیادہ مناسب اور بہتر ہے جس پر امت کا اجماع ہو چکا ہے، اس صیغے کے مقابلے میں جس میں اختلاف پایا جاتا ہے]۔

اور یہی منہج اس باب کی تمام روایات پر لاگو کیا جانا چاہیے، اور جہاں مرفوع و موقوف یا محفوظ و غیر محفوظ کے درمیان اختلاف ہو، وہاں یہی کہا جائے گا کہ جو چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محفوظ طریقے سے منقول ہے وہی دوسروں کی باتوں پر مقدم اور اولیٰ ہے، اور یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایت کو چھوڑ کر کسی اور کی بات کو اختیار کریں۔ اور جس صیغے پر اجماع ہو چکا ہو وہی تشہد میں پڑھنے کے لائق ہے، نہ کہ وہ صیغہ جس میں اختلاف واقع ہوا ہو۔

اور اسی پر اہلِ علم کی اکثریت — جیسا کہ امام ترمذی نے ذکر کیا — نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ، اور ان کے بعد تابعین میں سے اکثر نے عمل کیا ہے، اور یہی قول سفیان ثوری، ابن المبارک، امام احمد، امام اسحاق کا ہے۔ اور یہی قول آئمہ مذاہبِ اربعہ کے مطابق ہے۔

اس بارے میں فقہاء کی وارد شدہ نصوص:

یہی صحیح موقف ہے آثارِ باب اور ان میں اختلافات کی فقہ کے بارے میں اور اس بناء پر فقہاء - جن میں سرِفہرست ائمہ اربعہ اور ان کے شاگرد ہیں- کے دلائل ثابت شدہ مرفوع صیغوں میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے پر مبنی رہے؛ پس مالکیہ نے عمر رضی اللہ عنہ کا تشہد اختیار کیا، شافعیہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا تشہد منتخب کیا، اور حنفیہ و حنابلہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مشہور تشہد اختیار کیا جس میں «السلام عليك أيها النبي» شامل ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے جمہور علماء نے اس موقوف روایت کو چھوڑ دیا اور اس پر عمل نہیں کیا۔ تو صحابہ کرام سے مروی تشہد کی مختلف صیغوں کے باوجود، ان کے اکثر و بیشتر اقوال «السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ» کی عبارت پر متفق ہے، اور ہر ایک متبع فقہی مذہب کے علما نے ان صیغوں میں سے کسی ایک کو اختیار کیا، جبکہ وہ سب اس عبارت پر متفق ہیں، چنانچہ یہ عبارت تمام چاروں مذاہب اور ان کے علاوہ دیگر اہل علم کے مابین محلِ اتفاق ہے:

امام کاسانی حنفی نے اپنی کتاب *بدائع الصنائع* (1/211، دار الکتب العلمیة) میں فرمایا: "صحابہ رضی اللہ عنہم کا تشہد کی کیفیت میں اختلاف رہا ہے؛ ہمارے اصحاب (یعنی احناف) نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے تشہد کو اختیار کیا... امام شافعی نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے تشہد کو لیا... امام مالک نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تشہد کو اختیار کیا... اور بعض لوگوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے تشہد کو پسند کیا۔" (تصرف کے ساتھ)۔

امام باجی مالکی، جو ائمۂ مالکیہ میں سے ہیں، نے ''المنتقى'' (1/167، طبع دار الکتاب الاسلامی) میں فرمایا: "یہ تشہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہے، اور یہی امام مالک کا اختیار کردہ ہے، جبکہ امام ابو حنیفہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا تشہد اختیار کیا، اور امام شافعی نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا تشہد اختیار کیا۔ امام مالک کے اختیار کردہ موقف کی صحت پر دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا تشہد خبر متواتر کے درجے میں ہے؛ کیونکہ انہوں نے اسے منبر پر تمام صحابۂ کرام اور آئمۂ مسلمین کی موجودگی میں لوگوں کو سکھایا، اور نہ کسی نے انکار کیا اور نہ کسی نے اس کی مخالفت کی۔"

امام نووی شافعی رحمہ اللہ نے ''المجموع'' (3/437-438) میں، حضرت ابن مسعود، ابن عباس، سیدہ عائشہ، حضرت ابو موسیٰ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم کے تشہد کی روایات ذکر کرنے کے بعد – جن سب میں "السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ" کے الفاظ وارد ہیں – فرمایا: ''یہ وہ احادیث ہیں جو تشہد کے بارے میں وارد ہوئی ہیں، اور یہ سب کی سب صحیح ہیں، اور ان میں سب سے زیادہ صحیح –باتفاق محدثین– حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث۔ امام شافعی اور ان کے اصحاب نے فرمایا: ان میں سے کسی بھی تشہد سے اگر کوئی شخص تشہد پڑھ لے تو اس کا عمل درست ہے، لیکن ابن عباس کا تشہد افضل ہے... اور علمائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ ان میں سے ہر ایک پر عمل کرنا جائز ہے" ۔

حنابلہ نے حنفیہ کے ساتھ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے تشہد کو اختیار کیا، جس میں الفاظ "السلام عليك أيها النبي" ہیں؛ امام موفق الدین بن قدامہ نے "المغنی" (1/ 608، ط. دار الفكر) میں فرمایا: ''اور تشہد میں یہ کہا جائے گا: 'التحیات لله والصلوات والطيبات، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله۔' یہ وہ تشہد ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو سکھایا تھا۔ یہی تشہد ہمارے امام کے نزدیک پسندیدہ ہے، اور یہی اہل علم کی غالب رائے ہے، جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم اور تابعین نے اس پر عمل کیا ہے۔ امام ترمذی نے بھی یہی کہا ہے، اور یہی قول امام سفیان الثوری، امام اسحاق، امام ابو ثور، اہل رائے اور مشرق کے بہت سے علماء کا ہے۔"

اور اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جن حضرات نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے تشہد کو اختیار کیا — اور وہ حضراتِ حنفیہ و حضراتِ حنابلہ ہیں، نیز امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے بھی اس قول کو اکثر اہلِ علم کی طرف منسوب کیا ہے — تو انہوں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی دونوں روایتوں میں سے صرف اسی مشہور روایت کو اختیار کیا ہے جو دیگر صحابہ کرام سے مروی روایات کے ساتھ عبارت «السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ» میں متفق ہے، نہ کہ اُس دوسری روایت کو جو اس سے مختلف ہے۔

دوسری جہت سے دیکھیں، تو جو ثابت اور متواتر حدیث "السلام عليك أيها النبي" کی صیغہ کے ساتھ ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں ان لوگوں کے لیےبھی تھی جو آپ کے سامنے نماز پڑھتے تھے، اور جو آپ سے دور تھے، وہ بھی یہی صیغہ استعمال کیا کرتے تھے۔ اگر ضمیرِ خطاب صرف مخاطب کے سامنے ہونے کی حالت کے ساتھ خاص ہوتا، تو وہ لوگ جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہیں دور پڑھا کرتے تھے، انہیں بھی ضمیرِ غائب استعمال کرنی چاہیے تھی اور ضمیرِ خطاب سے اجتناب کرنا چاہیے تھا۔ اسی طرح، جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے نماز پڑھ رہے ہوتے، وہ "السلام عليك أيها النبي" کہتے، اور جو دور ہوتے، وہ "السلام على النبي" کہتے۔ مگر ایسا نہ کبھی کسی عالم نے نقل کیا اور نہ کسی نے اس بات کا دعویٰ کیا۔ اہل علم نے اس حدیث کو عموم پر محمول کیا ہے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیوی زندگی میں بھی اور برزخی زندگی میں بھی یکساں طور پر یہی صیغہ استعمال کیا جائے گا، چاہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہوں یا ان سے دور۔ اس عموم کو صرف دنیوی زندگی تک محدود کرنا اور برزخی زندگی سے مستثنیٰ قرار دینا، تخصیص بلا دلیل ہے، جو کہ غلط ہے۔

فتویٰ دینے والے کا عمل اور اس کا اپنی روایت کے برخلاف عمل کرنا عموم کی تخصیص نہیں کر سکتا، جیسا کہ پہلے وضاحت دی جا چکی ہے۔

روایت کے پہلو سے مسئلے کا تحقیق شدہ خلاصہ یہی ہے کہ کون سی روایت صحیح ثابت ہے اور کون سی نہیں، کون سی روایت محفوظ ہے اور کون سی غیر محفوظ، اور کس قول پر ہمیشہ عمل ہوتا رہا اور کون سا قول ترک کر دیا گیا۔

جہاں تک معنی اور ضمیرِ خطاب کے استعمال کی حکمت کا تعلق ہے؛ تو "فتح الباري" میں حدیث (797) کی شرح میں، اور اسی طرح "شرح العيني" (9/367) میں بھی اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے: اگر کوئی یہ سوال کرے کہ: «عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ» میں غیبت سے خطاب کی طرف منتقل ہونے میں کیا حکمت ہے؟ حالانکہ سیاق و سباق کا تقاضا یہی تھا کہ غیبت کا صیغہ ہو، جیسے (السلام على النبي)، یعنی پہلے اللہ کے لیے سلام، پھر نبی کے لیے، پھر اپنے نفس کے لیے، پھر صالحین کے لیے؟ تو علامہ طیبی نے اس کا جو جواب دیا، اس کا خلاصہ یہ ہے: ہم انہی الفاظ کی پیروی کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے خود صحابہ کرام کو سکھائے تھے۔ اور ممکن ہے کہ اہلِ عرفان کے انداز میں یوں کہا جائے: جب نمازیوں نے "التحیات" کے ذریعے عالمِ ملکوت کا دروازہ کھولا، تو انہیں اس زندہ و جاوید ہستی کے دربار میں داخلے کی اجازت مل گئی جو کبھی نہیں مرتی، چنانچہ اُن کی آنکھیں اس مناجات سے ٹھنڈی ہو گئیں۔ پھر اُنہیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا گیا کہ یہ مقام نبیِ رحمت ﷺ کی وساطت اور ان کی اتباع کی برکت سے حاصل ہوا ہے، پس جب انہوں نے توجہ کی، تو دیکھا کہ محبوب ﷺ محبوبِ حقیقی کے حرم میں حاضر ہیں، چنانچہ وہ متوجہ ہو کر عرض گزار ہوئے:  ''السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته"۔

اور قرآنِ کریم آج تک ہمارے درمیان تلاوت کیا جا رہا ہے، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کے صیغے کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے، جیسے فرمایا گیا: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ المُؤْمِنِينَ﴾** \[الأنفال: 64] (اے نبی! آپ کے لیے اللہ اور آپ کے پیروکار مؤمن کافی ہیں(، ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا﴾** \[الأحزاب: 45] (اے نبی! بے شک ہم نے آپ کو گواہ، خوشخبری دینے والا، اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے)، ﴿يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لاَ يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الكُفْرِ﴾** \[المائدة: 41] (اے رسول! آپ کو وہ لوگ غمگین نہ کریں جو کفر میں جلدی کرتے ہیں)، ﴿يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ﴾** \[المائدة: 67]، (اے رسول! آپ پہنچا دیں وہ سب کچھ جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے)۔ مزید بہت سی آیاتِ کریمہ اسی طرح کی ہیں،

تو کیا وہ شخص جو مسلمانوں پر — خواہ وہ پہلے کے ہوں یا بعد کے، صحابہ ہوں یا تابعین، فقہاء ہوں یا محدثین — اس بات میں خطا کا الزام لگا رہا ہے کہ وہ "السلام عليك أيها النبي" کہتے رہے، کیا وہ ان قرآن کی آیاتِ کریمہ کو بھی بدل دے گا؟ اور جس طرح وہ چاہتا ہے کہ نماز کے تشہد میں ضمیرِ خطاب کو ضمیرِ غائب سے بدلا جائے، اسی طرح ان آیات میں بھی خطاب کو غیبت میں بدل دے گا؟ تو پاک ہے (اے اللہ)! یہ تو بہت بڑا بہتان ہے!

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس قرآن کے پڑھنے کا مکلف بنایا ہے جو قیامت تک تلاوت کیا جاتا رہے گا، اور جس میں رسول اللہ ﷺ کو خطاب کے صیغے کے ساتھ پکارا گیا ہے، اور یہ خطاب آپ ﷺ کے وصال کے بعد منسوخ نہیں ہوا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں نماز کے تشہد میں بھی رسول اللہ ﷺ کو خطاب کے صیغے سے پکارنے کا حکم دیا ہے،، جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو سورتوں کی طرح سکھاتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنی دنیوی زندگی تک محدود نہیں کیا، اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں یہ سکھایا کہ آپ کے انتقال کے بعد یہ لفظ بدل دیں۔

پس اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیوی زندگی میں خطاب کا حکم اس کے بعد کے لیے مختلف ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس کی وضاحت ضرور کی ہوتی۔

امام ابو محمد ابن حزمؒ نے ان لوگوں پر سخت نکیر کی ہے جنہوں نے یہ گمان کیا کہ انبیاء اور رسل کی نبوت ان کے وصال کے بعد باقی نہیں رہتی، اور اس کے رد میں انہوں نے اس اجماع سے دلیل لی کہ نبی اکرم ﷺ پر سلام خطاب کے صیغے سے کیا جاتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی کتاب الفِصَل في المِلَل والأهواء والنِّحَل (1/76، طبع: مكتبة الخانجي) میں فرمایا: پس اگر انبیاء و مرسلین کی نبوت ان کے وصال کے بعد باقی نہ رہتی، تو لازم تھا کہ لوگوں کو یہ کہنے کا حکم دیا جاتا کہ ’’بے شک محمد ﷺ اللہ کے رسول **تھے**‘‘ (ماضی کے صیغے میں)، نہ کہ ’’اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ﴾ ﴿اور کچھ رسول ایسے بھی ہیں جن کا ہم نے تم سے پہلے ذکر کیا ہے، اور کچھ رسول ایسے ہیں جن کا ہم نے تم سے ذکر نہیں کیا﴾ [النساء: 164]، اور ﴿يَوْمَ يَجْمَعُ اللهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ﴾ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿جس دن اللہ رسولوں کو جمع کرے گا اور فرمائے گا: تمہیں کیا جواب دیا گیا؟﴾ [المائدة: 109]، نیز ﴿وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ﴾ ﴿اور نبیوں اور گواہوں کو لایا جائے گا﴾ [الزمر: 69]— یہ تمام آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کا مقامِ نبوت ان کے وصال کے بعد بھی برقرار رہتا ہے، اور وہ ہمیشہ کے لیے "نبی" اور "رسول" ہی رہتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان (انبیاءِ کرام) کو "رسول" فرمایا، حالانکہ وہ وفات پا چکے تھے، اور قیامت کے دن بھی انہیں "نبی" اور "رسول" کہہ کر پکارا جائے گا۔ اسی طرح تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے، اور نصوص بھی اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ہر فرضی یا نفلی نماز پڑھنے والا کہتا ہے: ’’السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته‘‘۔ اگر آپ ﷺ کی روحِ مبارک موجود اور قائم نہ ہوتی، تو یہ سلام گویا ایک معدوم کو ہوتا، جو کہ محض بے فائدہ اور فضول بات ہوتی۔

خلاصہ:
اس بناء پر، تشہد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول متواتر اور مرفوع صیغہ ــــ «السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ» ــــ جسے پوری امت کو مخاطب کر کے سکھایا گیا، یہ ہر زمانے اور ہر جگہ کے لیے عام ہے۔ اس کو کسی خاص حالت یا زمانے کے ساتھ مخصوص کرنا، بغیر کسی شرعی دلیل کے تخصیص ہے، جو معتبر نہیں۔ اور اسی بنیاد پر اکثر اہلِ علم ـــ جن میں آئمہ اربعہ سرِفہرست ہیں ـــ نے اس موقوف روایت پر عمل نہیں کیا، بلکہ سب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی متواتر مرفوع روایت ہی کو اختیار کیا، جیسا کہ اس سے پہلے تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔ اور سب اس پر متفق ہیں کہ تشہدات میں سلام کا صیغہ «السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ» ہی ہے: ، اور اسی صیغے پر سلف و خلف کا عمل رہا ہے۔ پس اسی پر فتویٰ دینا چاہیے اور دیگر اقوال کو ترک کر دینا چاہیے جو محدثین، فقہاء اور اصولیین کے مسلمہ قواعد سے باہر ہیں اور امت میں عملاً متروک ہیں۔ ان میں سے ایک متروک قول یہ ہے کہ صحابہ کرام کا لفظِ خطاب سے صیغۂ غائب کی طرف منتقل ہونا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے امت کو توقیفی امر تھا؛ کیونکہ یہ ایک امرِ تعبدی  ہے جس میں رائے اور اجتہاد کو کوئی دخل نہیں۔

یہ بات محض ایک دعویٰ ہے جو حقیقت کے مخالف ہے اور اس کی نہ کوئی عقلی دلیل ملتی ہے اور نہ نقلی۔ یہ دعویٰ صحابہ کرام کی طرف منسوب کیا گیا ہے، حالانکہ یہ مسلم ہے کہ اکثر صحابہ اس کے برعکس رائے رکھتے تھے۔ اور نبی ﷺ کی طرف سے توقیفی امر (یعنی خاص طور پر کسی عمل کا حکم دینا) کا احتمال ایک ایسا امکان ہے جو نبی ﷺ سے ثابت قول، فعل اور صحابہ کرام کو اس کی تعلیم دینے کے برعکس ہے۔ اگر ایسا کوئی توقیف ہوتا، تو صحابہ کرام اسے ظاہر کرتے اور نبی ﷺ کی طرف اس کی نسبت دیتے، جبکہ ہمیں ان کا مستقر (یعنی معمول) اس کے برعکس ملتا ہے۔

یہ دعویٰ کرنے والا شخص نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام پر جو الزام لگا رہا ہے، اس نے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے عمل کی مخالفت کی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں صحابہ کرام نے ان کے عمل کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس پر اعتراض بھی نہیں کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ جو تشہد لوگوں کو منبر پر سکھا رہے تھے، اس میں وہی عبارت تھی جسے صحابہ کرام نے سنا اور اس کی تصدیق کی۔ اور جیسا کہ الزہری نے ذکر کیا، وہ ان الفاظ پر عمل کرتے تھے اور کہتے تھے: 'انہوں نے لوگوں کو منبر پر یہ سکھایا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام وہاں موجود تھے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔

اگرچہ صحابہ کرام کے درمیان تشہد کی مختلف صیغوں پر اختلاف تھا، تاہم وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام پیش کرنے کی صحیح عبارت «السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ» ہے۔ یہ ایسا مقام ہے جس میں تواتر حاصل ہے، اور اس میں وہ شخص بھی شک نہیں کر سکتا جسے حدیث شریف سے معمولی سا بھی شغف ہو۔ اسی پر آئمہ اربعہ اور ان کے اصحاب بلکہ دیگر جلیل القدر ائمہ مسلمین کا بھی عمل رہا ہے۔ یہ بات ایسی ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے، اور جو شخص بھی حدیث شریف سے تھوڑی سی واقفیت رکھتا ہو، وہ اس پر پورا اطمینان رکھتا ہے۔ اس پر ائمہ مذاہب اور ان کے شاگردوں سمیت دیگر جلیل القدر ائمہ مسلمین کا بھی عمل رہا ہے۔

اور ہم یہ نہیں کر سکتے کہ ہم متواتر اور اجماع کے مطابق جو عمل جاری ہے، اسے چھوڑ کر محض اجتہاد پر مبنی رائے کی طرف رجوع کریں کیونکہ اجتہاد کبھی درست ہو سکتا ہے اور کبھی غلط، جیسا کہ معلوم ہے۔

ہمیں متواتر اور اجماع پر عمل کرنے کی جانب رجوع کرنا چاہیے، جو کہ اجتہاد سے باہر نہیں جا سکتا۔ اجتہاد کبھی صحیح اور کبھی غلط ہو سکتا ہے، جیسے کہ معلوم ہے۔ جو شخص متواتر، مرفوع اور اجماع کے مطابق عمل کر رہا ہے، اس کے بارے میں یہ کہنا کہ اس نے اپنی نماز میں غلطی کی، یہ بالکل غیر صحیح ہے۔

جیسا کہ بعض لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کا فقہ اور حدیث شریف سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ موقوف روایت کو مرفوع اور متواتر روایت کے مقابلے میں لے آتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ اس مرفوع اور متواتر صیغے پر عمل کا تسلسل خلفاء راشدین کے دور سے لے کر آج تک جاری ہے، اور صحابہ کرام نے اسی کی منبروں پر اور مجالس میں لوگوں کو تعلیم دی، اور کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas