وقت فجر کے دخول سے پہلے اذان کا حکم...

Egypt's Dar Al-Ifta

وقت فجر کے دخول سے پہلے اذان کا حکم

Question

ت سال ٢٠٠٥ء مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے:

سوال کی تفصیل یہ ہے کہ سائل کے گاؤں یعنی - کفر المصیلحۃ ۔ بندر شبین الکوم۔ ڈسٹرکٹ منوفیہ - کے مؤذن حضرات روزانہ مسجدوں میں فجر نماز سے آدھا گھنٹہ پہلے، بلکہ اور پہلے سے اذان دینا شروع کردتے ہیں، پھر اس کے بعد تین مرتبہ یہ اعلان کرتے ہیں: ''نماز فجر کےلئے آدھا گھنٹہ رہ گیا ہے''. ان کے اس عمل سے عام لوگوں کو خصوصا بچوں اور بیماروں کو بہت پریشانی ہوتی ہے، یہ صرف ایک مسجد کا معاملہ نہیں ہے بلکہ گاؤں کی ساری مسجدوں میں یکے بعد دیگرے یہی عمل جاری رہتا ہے. تو اس میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

Answer

امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں حضرت ابن عمر اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''دیکھو بلال رات میں اذان دیا کرتے ہیں، اس لئے تم اس وقت تک کھا پی سکتے ہو جب تک عبد اللہ ابن ام مکتوم کی اذان نہ ہو جائے".
جمہور علمائے کرام نے اس حدیث سے فجر سے پہلے اذان دینے کے جواز پر استدلال کیا ہے. اور امام بخاری نے اپنی صحیح میں اسی عنوان سے ایک باب قائم فرمایا ہے اس باب کو ''باب الاذان قبل الفجر'' - فجر سے پہلے اذان دینے کا باب - سے موسوم کیا ہے.
البتہ اس سنت پر عمل کرتے وقت لوگوں کی مجبوریوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، اس لئے کہ اسلام میں نہ ضرر دینا ہے اور نہ ضرر لینا ہے، اس لیے گاؤوں والوں کو کسی ایسے امر پر اتفاق کرنا چاہئے جس سے بغیر شور شرابے کے مقصد حاصل ہو جائے، کیونکہ اذان اول سے مندرجہ ذیل مقاصد وابستہ ہیں مثلا اگر کوئی روزہ رکھنے کی نیت کیا ہو تو سحری کی یاد دہانی ہوتى ہے، اگر کسی کو فجر سے پہلے وتر پڑھنا ہو تو اسے یاد دہانی کرانا وغیرہ وغیرہ ، بہرحال اس کے لئے موزوں یہ ہے کہ صرف محلے کی چند معین مسجدوں میں پہلی اذان کروا دی جائے تاکہ بلا شور و غل مطلب حاصل ہو جائے، اس كے علاوه دوسرے اعلانات اس میں شامل نہ کئے جائیں.

باقى اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas