التفسیر الاشاری

Egypt's Dar Al-Ifta

التفسیر الاشاری

Question

 تفسیر اشاری کیا ہے ؟ کیا اسے قرآن کی تفسیر کی حیثیت سے قبول کیا جاتا ہے ؟

Answer

 لغوی اعتبار سے " تفسیر " کا مادہ " سین " کی تشدید کے ساتھ " فسر " سے بنا ہے ۔ اور یہ نصر اور ضرب سے ہے ، یہ دونوں فعل متعدی ہیں جبکہ " تضعیف " کے ساتھ متعدی نہیں ہوتے ۔

 " فسر " کا معنی ہے کسی لفظ کی حقیقت کو کھول کر بیان کرنا اور اسکے لئے ایسے الفاظ کا انتخاب کرنا جس سے معنی کی حقیقت سننے والے کے سامنے اور واضح ہو جائے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ دونوں مصادر اور افعال معنی کے حوالے سے یکساں ہیں ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ " مضآعف " کا تعلق معقولات کو ظاہر کرنے  کی نسبت سے ہے ۔ اسی لئے امام ثعلب اور ابن عربی کہتے ہیں کہ تفسیر اور تاویل کا ایک معنی ہے اور ان میں کوئی اختلاف نہیں ([1])

اصطلاح میں تفسیر اس علم کو کہتے ہیں جو قرآن کے معانی کو بیان کرنے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ ([2])

اسی لئے تفسیر کی مختلف اقسام ہیں جو مفسرین کے مناھج کے مطابق ہیں ۔ " تفسیر اشاری " انہیں میں سے ایک قسم ہے جو ایک خاص فہم کو بیان کرتی ہے ۔ یہ فہم پہلی مرتبہ پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ انتہائی غور و خوض کے بعد اہل علم کو حاصل ہوتا ہے ۔

شیخ زرقانی کہتے ہیں " قرآں کی تفسیر ظاہری معانی لئے بغیر ، باطنی اشارات کو مد نظر رکھتے ہوئے بیان کرنا ، ان باطنی اشارات تک رسائی صرف ارباب تصوف کو ہوتی ہے جبکہ اس علم میں  آیات کی تفسیر میں باطنی اور ظاہری معانی کو جمع کرنا بھی ممکن ہوتا ہے " ([3]

تفسیر اشاری کے بارے میں ابن قیم کہتے ہیں : اشارات وہ معانی ہیں جو مخفی معانی کو ظاہر کرتے ہیں ، کبھی یہ معانی سنائی دیتے ہیں ، کبھی دکھائی دیتے ہیں ، کبھی عقلی حوالوں سے اسکا ادراک ہوتا ہے ، اور کبھی اسکا تعلق محسوسات سے ہوتا ہے ۔ پس اشارات دلائل اور شخصیات سے تعلق رکھتے ہیں اور اسکا سبب وہ روحانی پاکیزگی ہے جو جمعیت خاطر سے حاصل ہوتی ہے ، اور اس سے ذہن اور محسوسات لطافت میں ڈھل جاتی ہیں ۔ انسانی ذہن لطافت کو جان لیتا ہے ۔ ابن قیم کہتے ہیں کہ میں نے شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا " کہ اشارات سے مراد وہ لفظ ہیں جو روحانی امور پر دلالت کرتے ہیں " ([4])

علماء نے " تفسیر اشاری کو قبول کرنے کے لئے کچھ شرائط رکھی ہیں ۔ اسے قبول اس طرح کیا جائے گا کہ اس کا انکار نہیں اور نہ ہی اسے لینا واجب ہے ۔ کیونکہ اسے قبول کرنے کی شرائط میں سے یہ ہے کہ قرآن کے ظاہر کے منافی نہ ہو ۔ اور رہ گئی بات کہ اسے لینا ضروری ہے کہ نہیں تو اس بارے میں یوں کہا گیا ہے کہ یہ ایک صوفی کا وجدان ہے اور لوگوں کے لئے ضروری نہیں کہ اسے مان لیں کیونکہ یہ ایک راز ہے جو اللہ اور اسکے بندہ کے درمیان ہے ۔

" مناھل العرفان " میں اسے قبول کرنے کی شرائط کچھ اس طرح بیان کی گئی ہیں :

1-  قرآن کے ظاہر کے منافی نہ ہو

2 – یہ دعوی نہ کیا جائے کہ اس سے ظاہر مراد نہیں بلکہ اسکا باطنی معنی مراد ہے

3  -  ایسی تاویل نہ کی جائے جو باطل پر مبنی ہو جیسے کہ " ان اللہ لمع المحسنین " میں " لمع " فعل ہے اور " محسنین " مفعول ہے ۔ اب یہ تفسیر نا قابل قبول ہے

4 – پھر یہ بھی کہ تفسیر اشاری عقل اور شریعت کے مخالف نہ ہو

5 – اور آخری شرط یہ ہے کہ کوئی شرعی دلیل ہو جو اسکی تایید کرے

علماء نے یہ بات بھی کی ہے کہ یہ شرائط ایک دوسرے کے اندر اس طرح ملی ہوئی ہیں کہ ایک دوسری کا بدل ہو سکتی ہیں ۔ مثلا مفسر کو چاہئے کہ پہلے وہ لفظ کا وہ معنی بیان کرے جس کے لئے وہ وضع کیا گیا ہے پھر وہ تفسیر اشاری کو بیان کرے ۔

تفسیر اشاری کے بارے میں علماء کے اقوال ذیل میں بیان کیے جاتے ہیں :

امام غزالی اس ضمن میں کہتے ہیں " قرآن میں سارے کلمات "تفسیر اشاری" کا احتمال رکھتے ہیں ، یہ اسرار ہیں ۔ یہ ان پر کھلتے ہیں جو دل کی پاکیزگی رکھتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ علم کا رسوخ بھی رکھتے ہیں ۔ قرآن کی تفسیر بیان کرنے کے لئے دنیا کے سارے سمندر سیاہی بن جائیں ، سارے درخت قلم بن جائیں تب بھی قرآن کے اسرار و رموز ختم نہیں ہونگے ، در اصل " تفسیر اشاری " قرآن کی ظاہری تفسیر کو مکمل کرتی ہے کیونکہ وہ ظاہر کے منافی نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم بالصواب " ([5])

" تفسیر اشاری " کے بارے میں شیخ تاج الدین بن عطاء اللہ سکندری اپنی کتاب " لطائف المنن " میں یوں رقمطراز ہیں " یہ تفسیر اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے ۔ اسے ظاہر پر محمول نہیں کیا جا سکتا ، ہر آیت میں باطنی معانی پائے جاتے ہیں جوصرف اہل باطن پر منکشف ہوتے ہیں ۔ اس ضمن میں حدیث پاک میں یہ وارد ہے کہ " ہر آیت کا ظاہر اور باطن ہوتا ہے " تو اس کی رو سے یہ کہا جائے گا کہ تفسیر کی یہ قسم نصوص سے ہی مترشح ہوتی ہے " ([6])

یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ تفسیر اشاری کی کچھ اقسام ہیں جنہیں امام طاہر ابن عاشور نے ذکر کیا ہے ([7])

تفسیر اشاری کے اندر تین پہلو ہوتے ہیں

1 – اس میں کوئی مثال ہوتی ہے جسے بیان کیا جاتا ہے ۔ جیسے " ومن اظلم ممن منع مسجد اللہ ان یزکر فیھا اسمہ " یہ آیت دلوں کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ یہ جھکنے کے مقامات ہیں ، جب انسان اپنی ذات کو فنا کر لیتا ہے اپنی ہستی مٹا دیتا ہے تو اس کا دل اللہ کی سجدہ گاہ بن جاتا ہے اور وہ دل اللہ کے لئے خاص ہوجاتا ہے

2 – اس میں کسی چیز کے ساتھ تاثر کو بیان کیا جاتا ہے جیسے کہ انسانی سماعت کسی کلمہ کو اپنے اعتبار سے سنتی ہے حالانکہ وہ کسی اور ہئیت میں ہوتا ہے ، جیسے " من ذا الذی یشفع " میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی سماعت میں " من ذل ذی " آتا ہے اور وہ اسی سے معنی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ، امام محی الدین اس قسم کو " تفسیر سماعی " کہتے تھے ۔

3 – یہ قسم عبرت ، پند ونصائح اور واقعات پر مبنی ہے ۔ کیونکہ اہل عقل اس سے ہدایت حاصل کرتے ہیں بالخصوص تفسیر باطنی سے ایسے معانی کا حصول بے شمار فوائد  اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔

یہاں ان تفاسیر کے نام ذکر کرنے ضروری ہیں جن میں " تفسیر اشاری " کے پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے –

- تفسیر نیشاپوری
- تفسیر آلوسی
- تفسیر تستری
- تفسیر محی الدین بن عربی
- تفسیر ابی عبد الرحمن السلمی (حقائق التفسیر )
- تفسیر ابی القاسم القشیری

- تفسیر ابی محمد الشیرازی ( عرائس البیان فی حقائق القرآن )

- تفسیر ابن عجیبہ ( البحر المدید )
- تفسیر اسماعیل حقی ( روح البیان )

اسی بنیاد پر کہا جائے گا کہ " تفسیر اشاری " سابقہ شرائط کے ساتھ مقبول ہے جیسا کہ علماء سے منقول ہے

واللہ تعالی اعلم
 
 
 
 
 
 
 


 ۔ تاج العروس ، ج 13 ، ص 323[1]

  ۔ التحریر والتنویر ج 1 ، ص 11 [2]

 ۔ مناھل العرفان ، ط عیسی بابی الحلبی ، ج 2 ، س 56 [3]

 ۔ مدارج السالکین ، ط دار الکتاب العربی ۔ ج 2۔ ص 389[4]

  -  احیاء علوم الدین ، ج 1 ، س 293 ۔[5]

  - لطائف المنن۔ ط دار الکتاب المصری ، ص 335،336[6]

  - التحریر والتنویر ، ص 35 [7]

Share this:

Related Fatwas