بینک سے قسطوں پر گاڑی خریدنا

Egypt's Dar Al-Ifta

بینک سے قسطوں پر گاڑی خریدنا

Question

کیا بینک سے قسطوں پر گاڑی خریدنا جائز ہے جب اس بات کا علم بھی ہو کہ قسطیں بینک کے ذریعے پوری کی جائیں گی ؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد: یہ بات مسلمہ ہے کہ نقد قیمت اور مقررہ وقت تک " ثمن مؤجل " کے ساتھ خرید و فروخت صحیح ہے اور اس مدت کے برابر قیمت میں زیادتی شرعا جائز ہے۔ جمہور علماء کا یہی مذہب ہے۔ کیونہ یہ مرابحہ کے قبیل سے ہے اور مرابحہ بیع کی جائز اقسام میں سے ایک ہے ، جس میں مدت کے بدلے قیمت میں زیادتی کی شرط لگائی جاتی ہے۔ اس لئے کہ یہ مدت تو اگرچہ حقیقت میں مال نہیں ہے لیکن مرابحہ کے باب میں سے ہے جس کی وجہ سے قیمت میں اضافہ کیا جاتا ہے جب قیمت کی زیادتی کے بدلے میں معین مدت مذکور ہو ۔ اس لیے کہ اس میں دونوں کی رضا مندی ہوتی ہے اور اس میں ممانعت کا کوئی سبب بھی موجود نہیں ہے اور لوگوں کو اس عقد کی شدید ضرورت بھی ہے۔ اور اس عقد کو سود کے قبیل میں شمار نہیں کیا جائے گا کیونکہ شرعی قاعدہ ہے "إذا توسطت السلعة فلا ربا". یعنی جب سامان کا واسطہ درمیان میں آ جائے تو سود نہیں ہوگا۔
بینک کی قسطوں کا بھی یہی معنی ہے، اور اس عمل میں دو عقد ہوتے ہیں: پہلا بینک اور اس بیچنے والے کے درمیان جس کے نام کا چیک نکلتا ہے۔ دوسرا بینک اور خریدنے والے کے درمیان جسے بینک قسطوں پر یہ سامان دیتا ہے جس میں قیمت کی زیادتی اور سامان کی مدت اور اس کی مقدار معین ہوتی ہے، اور اسے شرعی اصطلاح میں قرض نہیں کہیں گے بلکہ یہ بینک کے واسطے سے عقد مرابحہ ہے۔ قرض کا نام دینا اس لئے جائز نہی ہے کہ شرعی قاعدہ " كل قرض جر نفعًا فهو رِبا". (ہر قرض جو نفع پر دیا جائے سود ہے) کے ساتھ التباس لازم نہ آئے۔
اس بنا پر ہم کہیں گے کہ مذکورہ سوال میں جو معاملہ ہے وہ شرعا صحیح ہے۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب ۔

 

 

Share this:

Related Fatwas