نبی اکرمﷺ کا خون مبارک
Question
احادیث میں وارد ہے کہ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم نے نبی اکرم ﷺ کا خونِ مبارک پیا تھا۔ کیا آپ ﷺ کا خون مبارک پاک تھا اور اسے پینا جائز تھا ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اس فعل کی شرعی توجیہ کیا ہو گی ؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد: صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے نبی پاک ﷺ کا خون مبارک پیا تھا جو کہ بہت سی کتب حدیث میں مذکور ہے۔ اور کتب فقہ کے "ابواب الطہارت " میں بھی مذکوران روایات کو امام سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب '' الخصائص '' میں جمع کیا ہے فرماتے ہیں: باب "اختصاصہ ﷺ بطھارۃ دمہ و بولہ و غایتہ " یعنی آپ ﷺ کی اس خصوصیت کا بیان کہ آپ ﷺ کا خون اور سبیلین سے نکلیں والی چیزیں پاک تھیں۔
امام غطریف ، امام طبرانی اور امام ابو نعیم رحمھم اللہ نے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا دیکھا تو آپ ﷺ کے پاس حضرت عبد اللہ بن زبیر موجود ہیں اور ان کے پاس کوئی برتن تھا جس میں سے کچھ پی رہے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : آپ نے اس خون کا کیا کیا ہے ؟ عرض کی : میں نے چاہا آپ ﷺ کا خون مبارک اپنی پیٹ میں چھپا لوں۔
آپ ﷺ نے فرمایا : '' تجھ پر لوگوں کی طرف سے بڑی آزمائش ہو گی اور تیری وجہ سے لوگوں کیلئے ہلاکت ہو گی۔ اور تجھے آگ نہیں چھوئے گی مگر اس قدر جو اللہ تعالی نے قسم اٹھائی ہے ''۔ ( وان منكم الا واردها )
امام ابن حبان نے '' الضعفاء '' حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے کہ قریش کے ایک لڑکے نے نبی اکرم ﷺ کو پچھنے لگائے ، جب فارغ ہوا تو خون اٹھایا اور چلا گیا اور خون کو پی لیا۔ پھر دوبارہ حاضر خدمت ہوا تو آپ ﷺ نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور فرمایا : تیرا بھلا ہو تو نے خون کا کیا ہے۔
عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں نے یہ گوارہ نہ کیا کہ آپ ﷺ کا خون مبارک زمین پر گراؤں اس لیے اسے میں نے پی لیا ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤ تو نے اپنے آپ کو آگ سے بچا لیا ہے ''
امام دار قطنی رحمہ اللہ نے حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت کیا آپ فرماتی ہیں : نبی اکرم ﷺ نے پچھنے لگوائے اور خون مبارک میرے بیٹے کو دیا تو اس نے پی لیا اور جبریل علیہ الصلاۃ والسلام نے آپ ﷺ کو یہ خبر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا : تو نے خون کا کیا کیا۔ عرض کیا مجھے اچھا نہ لگا کہ آپ کا خون ﷺ زمین پر گراؤں ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تجھے آگ نہیں چھوئے گی اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا : تجھ پر لوگوں کی طرف سے بڑی آزمائش ہو گی اور تیری وجہ سے لوگوں کیلئے ہلاکت ہو گی۔
امام بزار، امام ابو یعلی ، امام ابو خیثمہ اور امام بیہقی اور امام طبرانی رحمھم اللہ نے حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پچھنے لگوائے اور مجھے فرمایا کہ خون کو کہیں چھپا دو، میں گیا اور اسے پی کر دوبارہ بارگاہ رسالتمآب ﷺ میں حاضر ہوا آپ ﷺ نے فرمایا: خون کا کیا کیا۔ میں نے عرض کیا: اسے میں نے چھپا دیا ہے۔
آپ نے فرمایا : تو نے اسے پی لیا ہے؟
میں نے عرض کیا: جی
تو آپ ﷺ مسکرا دیے۔
امام بزار، امام طبرانی ، امام حاکم اور امام بیہقی رحمھم اللہ نے حضرت حسن بن عبد اللہ سے روایت کیا فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پچھنے لگوائے اور خون مبارک مجھے عطا کیا اور فرمایا کہ جاؤ اسے کہیں چھپا دو، میں گیا اور اسے پی کر دوبارہ بارگاہ رسالتمآب ﷺ میں حاضر ہوا آپ ﷺ نے فرمایا: خون کا کیا کیا۔ میں نے عرض کیا: اسے میں نے چھپا دیا ہے۔
آپ نے فرمایا : شاید تو نے اسے پی لیا ہے۔
میں نے عرض کیا: میں نے اسے پی لیا ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ نے حضرت سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ۔ آپ فرماتے ہیں کہ یوم احد کو آپ ﷺ زخمی ہوئے تو میرے بابا آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور منہ لگا کر آپ کا خون مبارک چوسا اور جلدی سے پی لیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : جسے اس آدمی کو دیکھ کر خوشی محسوس ہو جس کے خون کے ساتھ میرا خون ملا ہوا ہے وہ مالک بن سنان کو دیکھ لے۔
امام ابن سکن اور امام طبرانی رحمھما اللہ نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: اس نے اپنے خون کو میرے خون سے ملا لیا ہے اور اسے آگ نہیں چھوئے گی۔
امام ابو یعلی، امام حاکم ، امام دار قطنی امام طبرانی اور امام ابو نعیم رحمھم اللہ نےام ایمن رضی اللہ تعالی عنھا سے روایت کیا ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو اٹھے مٹی کے برتن کی طرف گئے اور اس میں پیشاب کیا اور پھر رات کو میں اٹھی مجھے پیاس لگی تھی تو اس برتن میں جو کچھ تھا میں نے اسے پی لیا۔ جب صبح ہوئی، میں نے آپ ﷺ کو بتایا تو مسکرا دیےاور فرمایا : آپ کے پیٹ میں کبھی درد نہیں ہو گا۔
امام ابویعلی رحمہ اللہ نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں : آج کے دن کے بعد آپ پیٹ درد کی شکایت نہیں کریں گی۔
امام طبرانی اور امام بیہقی - رحمھما اللہ – نے صحیح سند کے ساتھ حضرت حکیمہ بنت امیمہ سے انہوں نے اپنی ماں سے روایت کیا ہے کہ فرماتی ہیں : نبی اکرم ﷺ کا ایک برتن تھا جس میں آپ ﷺ پیشاب کیا کرتے تھے اور اسے آپ ﷺ اپنی چار پائی کے نیچے رکھا کرتے تھے۔ آپ ﷺ (ایک دن ) اٹھے اور وہ برتن لینا چاہا مگر وہاں موجود نہیں تھا۔ آپ ﷺ نے اسکے بارے میں دریافت کیا فرمایا : پیالا کہاں ہے۔ تو لوگوں نے بتایا اسے ام سلمہ کی خادمہ " برہ " جو حبشہ کی سرزمین سے آپ رضی اللہ عنھما کے ساتھ آئی تھیں، نے پی لیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس نے اپنے آپ کو آگ سے بچا لیا '' ( )
امام سیوطی رحمہ اللہ نے جو احادیث نقل کی ہیں اس میں کچھ کی اسناد صحیح ہیں اور کچھ اس سے کم درجے کی ہیں لیکن ضعیف بھی اپنے شواہد کے ساتھ مل کر قوی ہو جاتی ہے۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم نے حضور نبی اکرم ﷺ کا خون مبارک پیا اور سنت تقریری سے ان کے اس فعل کا جواز ثابت ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم میں سے جس نے یہ فعل کیا تھا ان کا نظریہ کیا تھا ؟
بلا شبہ ان کی نظر حضور نبی اکرم ﷺ کے جسم اور روح کی خصوصیات پر تھی جس کی وجہ سے وہ یہ کام کیا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے صرف خون مبارک پینے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ دیگر امور والی اخبار بھی وارد ہیں جیسے بول مبارک کا پینا۔ ان اشیاء کا ذکر طوالت کے ساتھ وارد ہوا ہے۔
یہی خصوصیات صحابہ کرام رضون اللہ اجمعین کے ذہنوں تھیں۔ اور کئی بار حضور نبی رحمت ﷺ کے ساتھ ان کی گفتگو میں ان خصوصیات کا اظہار ہوا تھا ان میں سے چند مثالیں یہ ہیں:
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں: حضور نبی رحمت ﷺ جب لوگوں کو کوئی حکم دیتے تھے تو ان کی طاقت کے مطابق ہی اعمال کرنے کا حکم دیتے تھے ۔ لوگ عرض کرتے تھے یارسول اللہ ﷺ ہم آپ ﷺ جیسے نہیں ہیں، اللہ تعالی نے آپ ﷺ کے اگلے پچھلے الزام معاف فرما دیے ہیں تو آپ ﷺ غصے ہوئے یہاں تک کہ غصہ آپ کے چہرے سے واضح ہو رہا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم تم سب سے زیادہ پرہیزگار اور زیادہ صاحبِ علم میں ہی ہوں '' ( )
حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ تعالی عنھما سے مروی ہے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا : کیا روزہ دار بوسہ دے سکتا ہے ؟
آپ ﷺ نے فرمایا یہ بات ام سلمی رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھ لو۔ تو ام سلمی رضی اللہ تعالی انہیں نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ ایسا کرتے ہیں۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ آپ کے تو اگلے پچھلے سارے الزام اللہ تعالی نے معاف فرما دیے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی قسم میں تم سب سے زیادہ متقی اور اللہ تعالی سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ ( )
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے مروی ہے: کوئی آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا وہ آپ ﷺ سے کچھ پوچھ رہا تھا میں دروازے کے پیچھے کھڑی سن رہی تھی۔ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ اگرنماز کا وقت ہو جائے اور میں حالت جنابت میں ہوں تو کیا روزہ رکھوں ؟
آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں حالت جنابت میں ہوں اور نماز کا وقت ہوجائے تو روزہ رکھتا ہوں۔
اس نے عرض کیا : آپ ﷺ ہم جیسے نہیں ہیں یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کے تو اگلے پچھلے سارے الزام اللہ تعالی نے معاف فرما دیے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم میں میں یہ امید کرتا ہوں کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالی سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ صاحبِ علم متقی بن جاؤں۔ ( )
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے (اتنی لمبی ) نماز پڑھی کہ آپ کے قدمین شریفین پر سوجن
آ گئی ۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا آپ ﷺ اتنی تکلیف کیوں کرتے ہیں حالانکہ آپ ﷺ کے تو اگلے پچھلے سارے الزام اللہ تعالی نے معاف فرما دیے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں اللہ تعالی شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ ( )
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں: حضور نبی رحمت ﷺ جب نماز ادا کرتے تو آپ ﷺ کے پاؤں مباک سوج جاتے تھے ۔ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کے تو اگلے پچھلے سارے الزام اللہ تعالی نے معاف فرما دیے ہیں پھر بھی آپ ﷺ اتنی عبادت کر رہے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : ''اے عائشہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں '' ( )
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں: نبی اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام پر رحمت کی خاطر انہیں صوم وصال سے منع کر دیا تھا۔ تو انہوں نے عرض کیا آپ ﷺ تو صوم وصال رکھتے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہاری ہیئت جیسا نہیں ہوں بیشک میرا رب مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ہے۔ ( )
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ام سلیم رسول اللہ ﷺ کیلئے چمڑے کی چادر بچھایا کرتی تھیں اور آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں اسی پرقیلولہ کیا کرتے تھے ۔ فرماتے ہیں پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے ( اور بیدار ہوئے ) تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ اور آپ کے بال لے لئے اور ( پسینہ کو ) ایک شیشی میں جمع کیا اور پھر "سک" ، ( ایک خوشبو ) میں اسے ملا لیا ۔ فرماتے ہیں کہ پھر جب انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب ہوا تو انہوں نے وصیت کی کہ یہ سک یعنی خوشبو ( جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ ملاہوا تھا ) ان کے کفن کو لگائی جائے ۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر ان کے کفن کو یہی خوشبو لگائی گئی ۔
سیدنا ابو ہریرہ یا سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنھما سے مروی ہے -اعمش کو شک تھا – غزوہ تبوک میں لوگوں کو بھوک لگی تو انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ ﷺ ہمیں اجازت عطا فرمائیں تو ہم اپنے اونٹوں کو ذبح کر لیں انہیں کھائیں اور ان سے تیل بھی بھی حاصل کریں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : '' کر لیں '' حضرت عمر رضی اللہ تعالی حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ ﷺ نے یہ اجازت دے دی تو سواری کی قلت ہوجائے گی، بلکہ آپ ﷺ ان سے باقی ماندہ زاد راہ منگوائیں پھر آپ ﷺ ان کیلئے اس میں برکت کی دعا کیجئے، شاید اللہ تعالی اس میں برکت عطا فرمائے۔ آپ ﷺ فرمایا : ہاں۔ راوی کہتے ہیں پھر آپ ﷺ نے چادر منگوائی اور اسے بچھایا پھر ان کا باقی ماندا زاد راہ منگوایا کہتے ہیں کوئی آدمی مٹھی بھر مکئی لا رہا ہے اور کوئی مٹھی بھر کھجوریں اور کوئی کسی شئی کا ٹکڑا لا رہا ہے۔ یہاں تک کہ چادر پر کچھ چیزیں جمع ہو گئیں تو آپ ﷺ نے اس پر برکت کی دعا کی پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے برتن بھر لو '' کہتے ہیں انہوں نے اپنے اپنے برتنوں کو اس سے بھر لیا یہاں تک کہ فوج میں کوئی برتن ایسا نہ بچا جسے بھر نہ لیا گیا ہو۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے پیٹ بھر کر کھا بھی لیا اور باقی بھی بچ گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ شک کرنے والے کے علاوہ جو بندہ بھی ان دونوں گواہیوں کے ساتھ اللہ سے ملے گا اس سے جنت نہیں چھپائی جائے گی ۔
حضرت ایاس بن سلمہ نے اپنے والد رضی اللہ تعالی عنھم سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں گئے تو وہاں خوراک کی قلت ہو گئی یہاں تک کہ ہم نے ارادہ کرلیا تھا کہ اپنی سواریاں ذبح کر لیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم پر ہم نے اپنے توشوں کو جمع کیا اور چمڑا بچھایا، اس پر سب لوگوں کے توشے اکھٹے ہوئے، سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اسے ناپنے لگا، ناپا تہ وہ اتنا ہی تھا جتنی جگہ میں بکری بیٹھتی ہے اور ہم چودہ سو لوگ تھے، پھر اسے ہم سب لوگوں نے خوب پیٹ بھر کر کھایا اور اس کے بعد اپنے اپنے توشہ دانوں کو بھر لیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کا پانی ہے؟“ ایک شخص ڈول میں ذرا سا پانی لے کر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایک گھڑے میں ڈال دیا اور ہم سب لوگوں نے اسی پانی سے وضو کیا ہم چودہ سو آدمیوں نے اسے خوب بہایا ، اس کے بعد آٹھ آدمی اور آئے انہوں نے کہا: وضو کا پانی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کا پانی ختم ہوگیا۔“ اخرجه مسلم ۔
سالم بن ابی الجعد نے اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور عصرکی نماز کا وقت ہو گیا تھوڑے سے بچے ہوئے پانی کے سوا ہمارے پاس اور کوئی پانی نہیں تھا، اسے ایک برتن میں ڈال کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا دست اقدس ڈالا اوراپنی انگلیاں پھیلا دیں پھر فرمایا آؤ وضو کر لو یہ اللہ کی طرف سے برکت ہے ۔ میں نے دیکھا کہ پانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹ پھوٹ کر نکل رہا تھا چنانچہ سب لوگوں نے اس سے وضو بھی کیا اورپیا بھی ۔ میں نے اس کی پرواہ کئے بغیر کہ پیٹ میں کتنا پانی جا رہا ہے خوب پانی پیا کیونکہ مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ برکت کا پانی ہے ۔ میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا آپ لوگ اس وقت کتنی تعداد میں تھے ؟ بتلایا کہ ایک ہزار چارسو ۔
ام معبد والی حدیث پاک میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے لاغر بکری سے دودھ دوہا ۔ اور جو لوگ گھر میں موجود تھے انہیں دودھ پلایا پھر برتنوں میں دودھ چھوڑ آئےاور اس حدیث میں یہ بات بھی ہے : جب نبی اکرم ﷺ روانہ ہو گئے تو ابو معبد بکریوں کو ہانکتے ہوئے گھر آئے تو گھر میں دودھ دیکھا تو کہنے لگے یہ کہاں سے آیا ہے؟ ام معبد نے کہا : ہمارے پاس ہاں سے ۔
ایک مبارک ہستی گذری تھی۔ اس حدیث پاک کو امام بغوی نے '' شرح السنہ '' میں امام ابن عبد البر نے '' الاستدعاب '' میں امام جوزی نے '' کتاب الوفاء '' میں روایت کیا ہے حدیث پاک میں مکمل قصہ موجود ہے۔
حضرت حارث بن عمرو سہمی رضی اللہ تعالی عنھما سے مروی ہے آپ رضی اللہ تعالی عنھما فرماتے ہیں میں منی یا عرفات میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا درآنحالیکہ لوگ بھی آپ ﷺ کے پاس موجود تھے۔ کہتے ہیں کہ کچھ گاؤں کے لوگ آئے اور انہوں نے آپ ﷺ کے چہرہ انور کو دیکھا تو کہنے لگے : یہ مبارک چہرہ ہے۔ اخرجه ابو داود
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے مروی ہے: رسول اللہ ﷺ جب بیمار ہوتے تو معوذات کی سورتیں پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے پھر جب آپ کی تکلیف بڑھ گئی تو میں ان سورتوں کو پڑھ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دایاں ہاتھ برکت کی امید میں آپ کے جسد مبارک پر پھیر تی تھی ۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب خندق کھودی جا رہی تھی تو میں نے معلوم کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی بھوک میں مبتلا ہیں۔ میں فوراً اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہا کیا تمہارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟ میرا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بھوک لگی ہے ۔ میری بیوی ایک تھیلا نکال کر لائی جس میں ایک صاع جَو تھے۔ ہمارا ایک بکری کا بچہ بھی بندھا ہوا تھا۔ میں نے بکری کے بچے کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَو کو چکی میں پیسا۔ جب میں ذبح سے فارغ ہوا تو وہ بھی جَو پیس چکی تھیں۔ میں نے گوشت کی بوٹیاں کر کے ہانڈی میں رکھ دی ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میری بیوی نے پہلے ہی تنبیہ کر دی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کرنا۔ چنانچہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے کان میں یہ عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم نے ایک چھوٹا سا بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جَو بھی پیسے ہیں جو ہمارے پاس موجود تھے۔ اس لیے آپ کچھ صحابہ کو ساتھ لے کر تشریف لے لائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا : اے اہل خندق! جابر (رضی اللہ عنہ) نے تمہارے لیے کھانا تیار کیا ہے۔ بس اب سارا کام چھوڑ دو اور جلدی چلو۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تک میں
آ نہ جاؤں ہانڈی چولھے پر سے نہ اتارنا اور نہ ہی آٹے کی روٹی پکانی شروع کرنا۔ میں اپنے گھر آیا۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ میں اپنی بیوی کے پاس آیا تو وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں۔
میں نے کہا کہ تم نے جو کچھ مجھ سے کہا تھا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی عرض کیا تھا۔ آخر میری بیوی نے گندھا ہوا آٹا نکالا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنے لعاب مبارک ملایا اور برکت کی دعا کی۔ ہانڈی میں بھی آپ نے لعاب مبارک ملایا اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اب روٹی پکانے والی کو بلاؤ۔ وہ میرے پاس روٹی پکائے اور گوشت ہانڈی سے نکالے لیکن چولھے سے ہانڈی نہ اتارنا۔ صحابہ کی تعداد ہزار کے قریب تھی۔ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ اتنے ہی کھانے کو سب نے (پیٹ بھر کے) کھایا اور (کھا کر) باقی چھوڑ دیا۔ جب تمام لوگ واپس چلے گئے تو ہماری ہنڈیا جیسے تھی ویسے ہی ابل رہی تھی اور آٹے کی روٹیاں برابر پکائی جا رہی تھیں۔
قتادہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ہم سے انس بن مالک نے بیان کیا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن اور رات کے ایک ہی وقت میں اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے اور یہ گیارہ تھیں ۔ راوی نے کہا ، میں نے انس سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طاقت رکھتے تھے ۔ تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیس مردوں کے برابر طاقت دی گئی ہے
آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ہی آپ ﷺ کے آثارِمقدسہ سے برکت حاصل کرنا ثابت ہے :
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے مروی ہے: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُؤْتَى بِالصِّبْيَانِ فَيُبَرِّكُ عَلَيْهِمْ وَيُحَنِّكُهُمْ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب بچوں کو لایا جاتا تھا تو آپ ﷺ ان کیلئے برکت کی دعا کرتے اور کجھور چبا کر ان کے منہ میں ڈال دیتے تھے۔ ( )
آپ رضی اللہ تعالی عنھا کا فرمان (فَيُبَرِّكُ عَلَيْهِمْ ) کا معنی ہے : ان کیلئے دعا کرتے اور ان پر ہاتھ پھیرا کرتے تھے۔ برکت کی اصل خیر کا ثبوت اور کثرت ہونا ہے اور (وَيُحَنِّكُهُمْ ) میں اہل لغت فرماتے ہیں : التحنيك کا معنی ہے : کھجور وغیرہ کو چبانا اور پھر بچے کے حلق کو لگا دینا۔ اس میں دو لغتیں مشہور ہیں "حنكته " اور "حنًكته " یعنی تخفیف اور تشدید کے ساتھ۔ اور یہاں پر روایت میں وَيُحَنِّكُهُمْ تشدید کے ساتھ ہے اور یہ لغت دونوں میں سے زیادہ مشہور ہے۔
صلح حدیبیہ والی طویل روایت میں ہے : جب عروہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آئے تو کہنے لگے اے میری قوم ! اللہ کی قسم میں بادشاہوں کے پاس بھی ایلچی بن کر گیا قیصر و کسری کے پاس بھی گیا اور نجاشی کے پاس بھی گیا اللہ تعالی کی قسم میں نے کوئی بادشاہ ایسا نہیں دیکھا جس کے ساتھی اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد ﷺ کے ساتھ محمد ﷺ کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم جب آپ ﷺ بلغم پھینکتے ہیں تو ان میں کسی آدمی کے ہتھیلی پر گرتی ہے وہ اپنے چہرے اور جلد پر اسے مل لیتا ہے ، جب کوئی حکم فرماتے ہیں تو اسے پورا کرنے میں ایک دوسرے سے پہل کرتے ہیں ، جب آپ ﷺ وضو کرتے ہیں تو وضو کا پانی لینے کیلئے آپس میں لڑ پڑتے ہیں، جب آپ ﷺ بات کرتے ہیں تو اپنی آوازوں کو آپ ﷺ کے پاس آہستہ کر لیتے ہیں اور آپ ﷺ کی تعظیم کی وجہ سے آپ ﷺ کی طرف ٹکٹکی باندھ کر بھی نہیں دیکھتے ہیں۔
محمد یعنی ابن سیرین سے مروی ہے آپ رحمہ اللہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ " منی " میں جب رسول اللہ ﷺ نے حلق کروایا سر مبارک کے دائیں حصے (کے بالوں) کو پکڑ لیا جب فارغ ہوئے مجھے تو وہ بال مجھے عطا کئے اور فرمایا : ام سلیم کے پاس لے جاؤ جب لوگوں نے دیکھا کہ ایک حصہ آپ ﷺ نے خاص کر دیا تو دوسرے حصے کے بالوں کو حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے پر پہل کرنے لگے کسی نے کچھ حاصل کیے اور کسی نے کچھ۔
محمد یعنی ابن سیرین فرماتے ہیں میں نے یہ بات حضرت عبیدہ السلمانی سے بیان کی تو فرمانے لگے : اگر میرے پاس آپ ﷺ کا ایک بال مبارک بھی ہوتا تو وہ مجھے ہر قسم کے سونے اور چاندی جو زمین پر اور اس کے اندر ہے سے زیادہ محبوب ہوتا۔ ( )
آپ ﷺ کے آثارِمقدسہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین آپ ﷺ کے وصال کے بعد بھی برکت حاصل کیا کرتے تھے:
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے مروی ہے آپ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں : جب رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا تو ہمارے پاس کچھ "جو" تھے جتنا اللہ تعالی نے چاہا ہم نے انہیں کھایا پھر میں نے لونڈی کو کہا کہ انہیں ماپو، اس نے ماپے تو وہ ختم ہو گئے اور اگر ہم اسے چھوڑے رکھتے (یعنی نہ ماپتے تو) ہم اس سے زیادہ کھا سکتے تھے۔ ( )
مالک بن اسماعیل نے بیان کیا ، فرماتے ہیں ہم سے اسرائیل نے بیان کیا ، ان سے عثمان بن عبداللہ بن وہب نے بیان کیا کہ میرے گھر والوں نے ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس پانی کا ایک پیالہ دے کر بھیجا - اسرائیل راوی نے تین انگلیاں بند کر لیں - اس پیالی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں میں سے کچھ بال تھے ۔ عثمان نے کہا جب کسی شخص کو نظر لگ جاتی یا کوئی بیماری لگ جاتی تو وہ اپنا برتن پانی کا ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیتا ۔ ( وہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بال ڈبو دیتیں ) عثمان نے کہا کہ میں نے نلکی کو دیکھا ( جس میں موئے مبارک رکھے ہوئے تھے ) تو سرخ سرخ بال دکھائی دیئے ۔ ( )
امام بیہقی رحمہ اللہ کی روایت میں ہے : عثمان بن موہب سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنھا کے پاس ایک چاندی کی موٹی سی چاندی کی نلکی تھی اس میں نبی اکرم ﷺ کے موئے مبارک تھے جب کسی انسان کو بخار ہوتا تو اسے آپ رضی اللہ تعالی عنھا کی بارگاہ میں بھیجا جاتا آپ رضی اللہ تعالی عنھا موئے مبارک کو پانی میں ہلاتیں پھر وہ پانی آدمی اپنے چہرے پر چھڑک لیتا تھا۔ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے گھر والوں نے آپ رضی اللہ تعالی عنھا کے خدمت میں بھیجا تو آپ رضی اللہ تعالی عنھا نے اسے نکالا تو یہ اس طرح کا تھا اور سرئیل نے تین انگلیوں کے ساتھ اشارہ کیا اور اس میں سرخ موئے مبارک تھے۔ ( )
سیدہ اسماء رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں : یہ رسول اللہ ﷺ کے جبہ مبارک ہے آپ رضی اللہ تعالی عنھا نے کسروانی جبہ نکالا جسکے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ فرمانے لگیں : یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی کے پاس تھا ، جب آپ رضی اللہ تعالی عنھا فوت ہوگئیں تو اسے میں نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ نبی اکرم ﷺ اسے پہنا کرتے تھے ۔ اب ہم اسے مریضوں کیلئے دھوتے ہیں اور اس کے وسیلے سے شفاء طلب کی جاتی ہے۔ ( )
حضرت حمید سے مروی ہے انہوں نے سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا : آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے کفن میں خوشبو کی تھیلی رکھوائی یا وہ خوشبو جس میں رسول اللہ ﷺ کے کچھ بال رکھے۔ ( )
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے بعد بھی تبرک حاصل کیا جاتا رہا:
قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہم سے قاضی ابو علی نے بیان کیا انہوں نے اپنے شیخ ابو قاسم بن مامون سے روایت کیا فرماتے ہیں : ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کے پیالوں میں سے ایک پیالہ تھا اس میں ہم مریضوں کیلئے پانی رکھا کرتے تھے وہ اس کے ذریعے شفا طلب کیا کرتے تھے۔ ( )
اس مسئلہ کی بہت سے فقہائے کرام نے تصریح کی ہے:
خطیب شربینی فرماتے ہیں : یہ نبی اکرم ﷺ کے فضائل مبارکہ ہیں اسی طرح امام بغوی وغیرہ نے کہا ہے قاضی وغیرہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور میرے شیخ نے '' الشرح الصغیر والتحقیق من النجاسۃ '' کی عبارت کے خلاف فتوی دیا ہے، کیونکہ '' برکہ '' نامی حبشی عورت نے آپ ﷺ کا بول مبارک پیا تو آپ ﷺ نے اسے فرمایا: '' تیرے پیٹ میں آگ داخل نہیں ہوگی '' اس حدیث پاک کو امام دار قطنی نے صحیح قرار دیا ہے اورم امام ابو جعفر ترمذی کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کا خون مبارک پاک ہے کیونکہ ابو طیبہ نے اسے پیا اور ابن زبیر نے بھی لڑکپن کی عمر میں اسی طرح کیا تھا۔ جب نبی اکرم ﷺ نے انہیں اپنے پچھنے والا خون مبارک دیا تھا تو انہوں نے اسے پی لیا تھا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کا خون میرے خون سے مل گیا اسے آگ نہیں چھو سکتی۔ ( )
امام بہوتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہماری جو چیز ناپاک ہے نبی اکرم ﷺ اور تمام انبیاء - علی نبینا وعلیھم الصلاۃ والسلام - کی وہ شیئ پاک ہے اور آپ ﷺ کے بول مبارک اور خون مبارک سے شفاء طلب کرنا جائز ہے۔ کیونکہ امام دار قطنی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے
کہ ام ایمن رضی اللہ تعالی عنھا نے نبی اکرم ﷺ کا بول مبارک پیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تیرے پیٹ میں آگ داخل نہیں ہو گی '' لیکن یہ حدیث پاک ضعیف ہے۔ اور دوسری دلیل یہ ہے کہ امام ابن حبان نے '' الضعفاء '' میں روایت کیا ہے نبی اکرم ﷺ کو ایک لڑکے نے پچھنے لگائے جب فارغ ہوا تو آپ ﷺ کا خون مبارک پیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تیرا بھلا ہو خون کا کیا کِیا تو نے؟ '' عرض کیا اسے میں نے اپنے پیٹ میں چھپا لیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : '' جاؤ تم نے اپنے آپ کو آگ سے بچا لیا '' حافظ ابن حجر نے کہا ہے: اس میں راز یہ ہے کہ دو فرشتوں نے آپ ﷺ کے جوف مبارک کو دھویا تھا۔ ( )
اس میں تمام انبیاء کے عموم پر امام بجیرمی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب '' حاشیۃ علی الاقناع '' میں نص قائم کی ہے۔ ( )
امام زکریا انصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : آپ ﷺ کے بول مبارک اور خون مبارک سے تبرک حاصل کیا جاتا تھا۔ امام دار قطنی نے روایت کیا ہے کہ ام ایمن نے آپ ﷺ کا بول مبارک پیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تیرے پیٹ میں آگ داخل نہیں ہو گی '' لیکن یہ حدیث پاک ضعیف ہے۔ اور دوسری دلیل یہ ہے کہ امام ابن حبان نے '' الضعفاء '' میں روایت کیا ہے نبی اکرم ﷺ کو ایک لڑکے نے پچھنے لگائے جب فارغ ہوا تو آپ ﷺ کا خون مبارک پیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تیرا بھلا ہو خون کا کیا کِیا تو نے؟ '' عرض کیا اسے میں نے اپنے پیٹ میں چھپا لیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : '' جاؤ تم نے اپنے آپ کو آگ سے بچا لیا '' ہمارے شیخ نے کہا ہے: اس میں راز یہ ہے کہ دو فرشتوں نے آپ ﷺ کے جوف مبارک کو دھویا تھا۔ ( )
مذکورہ تمام دلائل سے واضح ہو گیا کہ نبی اکرم ﷺ کا خون مبارک پاک ہے۔ ایمانی محرکات نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو اس قابل بنا دیا تھا کہ وہ آپ ﷺ کا خون مبارک پینے اور اپنے پیٹ میں داخل کرنے اور اپنے خون کے ساتھ ملانے میں بہت حریص تھے۔
اللہ تعالی اعلم بالصواب