نبی اکرم ﷺ کے عمروں کی تعداد
Question
نبی اکرمﷺ نے ہجرت کے بعد کتنے عمرے کیے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد: نبی اکرم ﷺ نے چار بار عمرہ کیا، کیونکہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے: نبی اکرم ﷺ نے چار عمرے کیے، سب ذی القعدہ میں کیے سوائے اس عمرے کے جو آپ ﷺ نے حج کے ساتھ کیا تھا۔ پہلا ذی القعدہ میں حدیبیہ کے زمانے میں کیا تھا، اور دوسرا اگلے ہی سال ذی القعدہ میں کیا، اور ایک عمرہ '' جعرانہ '' سے کیا،جب آپ نے ذی القعدہ میں حنین کے غنائم کی تقسیم کی تھی، اور ایک عمرہ اپنے حج کے ساتھ کیا تھا۔ ( )
حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں: میں اور عروہ بن زبیر مسجد نبوی میں داخل ہوئے ، وہاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، کچھ لوگ مسجد نبوی میں صلاۃِ ضحیٰ پڑھ رہے تھے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے عبداللہ بن عمر سے ان لوگوں کی اس نماز کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ بدعت ہے ، پھر ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کئے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ چار ، ایک ان میں سے رجب میں کیا تھا ، لیکن ہم نے پسند نہیں کیا کہ ان کی اس بات کی تردید کریں ۔( )
امام نووی رحمہ اللہ صحیح مسلم شریف کی شرح میں فرماتے ہیں: سیدنا أنس وابن عمر رضي الله عنهم کی روایت کا ماحاصل یہ ہے کہ دونوں روایتیں عمروں کی تعداد کےچار ہونے پر متفق ہیں، ان میں سے ایک عمرہ حدیبیہ کے سال 6 ہجری کو ذی القعدہ میں ہوا تھا، اس میں معتمرین کو روک دیا گیا تھا، انہوں نے وہیں احرام کھول دیے دے اور انہیں عمرے کا ثواب ملا تھا۔ اور دوسرا ۷ ہجری کو ذی القعدہ میں ہوا، اور یہ قضا عمرا تھا۔ اور تیسرا عمرہ 8 ہجری کو ذی القعدہ میں ہوا، یہ عام الفتح یعنی فتحِ مکہ کا سال تھا، اور چوتھا عمرہ آپ ﷺ نے اپنے حج کے ساتھ ادا کیا، اس کا احرام بھی ذی القعدہ میں ہی باندہ تھا لیکن اسے ادا ذی الحجہ میں کیا تھا۔ اور جو ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنھما کا قول ہے کہ ایک عمرہ آپ ﷺ نے رجب میں کیا تھا۔ تو اس بات کا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا نے انکار کیا ہے جب آپ رضی اللہ تعالی عنھا نے انکار کیا تو ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ خاموش ہو گئے۔ علماء فرماتے فرماتے ہیں: یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ پر امر مشتبہ ہوگیا تھا یا آپ رضی اللہ تعالی عنہ بھول گئے تھے یا آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو اس بارے میں شک تھا لہٰذا آپ رضی اللہ تعالی عنہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کے انکار کا جواب دینے سے خاموش رہے۔ یہی بات حق ہے۔ ( )
والله سبحانه وتعالى أعلم.