کھجور کے پھل کو پکنے سے پہلے فروخت ...

Egypt's Dar Al-Ifta

کھجور کے پھل کو پکنے سے پہلے فروخت کرنا

Question

میرے پاس کھجوروں کا باغ ہے، اگر خریدار اس کی دیکھ بھال اور پھل کو اتارے کیلئے تیار ہو جائے تو کیا میں اس کے پکنے سے پہلے ہی پھلوں بیچ سکتا ہوں؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد: اس طریقے سے باغ کے پھلوں کو فروخت کرنا صحیح نہیں ہوگا؛ پھل پکنے سے پہلے انہیں فروخت کرنا ممنوع ہے؛ لیکن ہم اس معاملے کو چند طریقوں سے سلجھا سکتے ہیں، ان میں سے جو طریقہ آپ کو مناسب لگے اسے اختیار کر لیں۔

1- کراۓ پر دے دے: کسان اپنے باغ والی زمین تاجر کو معینہ مدت تک کراۓ پر دے دے؛ اور اس عقد میں اجرت بھی متعین ہوگی، تو تاجر باہم معینہ مدت تک زمین کراۓ پر لے گا اور اس مدت میں ہر چیز کا ذمہ دار ہو گا ، اگر اس مدت میں پھلوں کو کچھ بھی ہوتا ہے تو مالکِ زمین کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

درختوں کا کرائے پر لین دین بعض علماء کے نزدیک صحیح ہے۔ امام حرب کرمانی، حنابلہ میں سے ابو وفاء بن عقیل اور شیخ تقی الدین ابن تیمیہ اس پر دلیل اس حدیث مبارکہ سے دیتے ہیں جسے سعید بن منصور نے روایت کیا ہے اور ابو حرب کرمانی نے اسے اپنے مسائل میں روایت کیا ہے؛ فرماتے ہیں: عباد بن عباد نے بیان کیا ہے کہ ہشام بن عروہ نے اپنے والدِ گرامی سے روایت کیا ہے '' اسید بن خضیر جب فوت ہوئے تو ان پر 6000 درہم قرض تھا تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے قرضداروں کو بلایا اور اس کی زمین کئی سالوں کیلئے انہیں دے دی، جس میں کھجور کے اور دیگر انواع کے درخت تھے۔ اور اس میں زمین کے اجارہ کو زراعت کے اور مرضعہ کے اجارہ کو رضاعت کے قائم مقام کر دیا۔

یہاں اجارہ منفعت کے مقابلے میں ہونے کے باوجود جائز ہے، کیونکہ اصل کی بقاء کے ساتھ جو فائدہ حاصل ہوگا وہ منفعت کے قائم مقام ہو گا اگرچہ وہ فائدہ عین ہی ہے، اس جہت سے اس کے قائم مقام ہے کہ وہ استعمال کرنے سے ختم نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالی کی تخلیق کی وجہ سے اس میں تجدد آتا رہتا ہے۔

2-  اس معاملے کو ہم اس طرح بھی حل کرسکتے ہیں کہ تاجر اور مالکِ زمیں "عقدِ مساقات " کر لیں؛ عقدِ مساقاۃ یہ ہے کہ باغ کا مالک پھل پکنے تک باغ پانی دینے والے کو دے دے کہ اس کام کے بدلے وہ پھلوں میں سے متعین حصہ ساقی کو دے گا ۔ یہ عقد جہور علماء کے نزدیک جائزہے، ان کی دلیل سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہا والی حدیث مبارکہ ہے۔ لیکن امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس جائز قرارنہیں دیا اور ان کی دلیل یہ حدیث پاک ہے جو امام مسلم نے رافع سے روایت کی ہے : اللہ تعالی اور اس کے رسول اکرم ﷺ کی اطاعت ہمارے لئے زیادہ نفع بخش ہے، اس نے ہمیں زمین کو تیسرے یا چوتھے حصے یا مقررہ مدت کے بدلے کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، اور زمین والے کو حکم دیا ہے کہ یا تو خود کاشت کرے یا کسی سے کاشت کرا لے، اور اسے تیسرے یا چوتھے  یاکسی مقررہ اناج کے بدلے کرائے پر نہ دے۔([1])

3-  اس طريقے سے بھی یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے کہ خدمت مالک کے ذمہ ہو اور ان دونوں کے درمیان عقدِ سلم قائم کیا جائے؛ اوراس عقد میں یہ ہوتا ہے کہ ذمہ میں موصوف چیز کو لفظ '' سلم '' یا '' سلف '' کے ساتھ بیجا جاتا ہے، اور "بیع سلم" (وہ بیع جس میں قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اور چیز بعد میں خریدار حاصل کرتا ہے )  لفظ '' بیع '' کے ساتھ بھی صحیح ہو جاتی ہے اگر دونوں نے اپنے ارادے کو بیان کر دیا ہو کہ اس مراد "سلم " ہے، اور اس میں  "بیع سلم"  کی شروط میں موجود ہوں، وہ یہ کہ خریدار، فروخت کرنے والے کو متعین مال ادا کرے کہ وہ اس کے بدلے معین مدت کے بعد ان ان صفات کے حامل  اناج یا پھل کی معینہ مقدار اسے ادا کرے گا، چاہے اپنے باغ سے ادا کرے یا کہیں اور سے لے کر ادا کرے۔

بنا پر آں ہم کہیں گے کہ باغ والے کو چاہیے کہ عمل تلقیح سے پہلے یا بعد یا تو زمین کو کراۓ پر دینے والی رائے پر عمل کرلے، جس میں معینہ مدت کے بدلے میں اجر بھی متعین ہو۔ تو یہ عقد اس مذہب کے مطابق اس "منہی عنہ" (جس سے روکا گیا ہے )  میں شامل نہیں ہو گا جس میں حضور نبی اکرم نے پھلوں کو پکنے سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا تھا۔

یا "عقدِ مساقات " والی رائے پر عمل کر لے اور ساقی کو پھلوں کا معین حصہ دے، جمہور فقہاء عظام کے نزدیک یہ عقد جائز ہے۔

یا پھر آپس میں "عقدِ سلم " طے کر لیں اور مشتری بائع کو معین ثمن ادا کرے، جس کے بدلے میں باغ والا اسے معین صفات والے پھل یا اناج طے شدہ وقت پر معین "وزن" یا "ناپ" کے ساتھ دے گا؛ چاہے وہ اپنے باغ سے ادا کرے یا کہیں اور سے لے کر ادا کرے۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب۔

 

 


[1]رواه أبو داود (3 / 689)

Share this:

Related Fatwas