حیض کے بعد غسل سے پہلے جماع کرنا

Egypt's Dar Al-Ifta

حیض کے بعد غسل سے پہلے جماع کرنا

Question

شوہر نے اپنی بیوی سے حیض کا خون بند ہونے کے بعد غسل کرنے سے پہلے ہی جماع کر لیا؛ کیا یہ اس کے لیے جائز تھا؟ 

Answer

 الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد ! حائضہ کے ساتھ اس وقت تک جماع کرنا جائز نہیں، جب تک خون منقطع ہو جانے کے بعد عورت غسل نہ کر لے، پس غسل سے پہلے جماع کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس کے حلال ہونے کیلئے اللہ تعالی دو شرطیں رکھیں ہیں: خون کا منقطع ہونا، اور غسل کرنا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: [ اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے حیض کے متعلق آپ فرمائیں وہ تکلیف دہ ہے پس الگ رہا کرو عورتوں سے حیض کی حالت میں اور نہ نزدیک جایا کرو ان کے یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں]( ) یعنی خون منقطع ہوجائے ﴿فَإِذَا تَطَهَّرْنَ﴾ یعنی وہ پانی سے غسل کرلیں؛ ﴿فَأْتُوهُنَّ﴾ ان کے پاس آنے کو طہارت حاصل کرنے یعنی غسل کرنے پر موقوف کردیا۔
علماء مالکیہ نے اس بات کو صراحت سے بیان کیا ہے کہ خون منقطع ہو جانے کے بعد جماع کرنے کیلئے کسی بھی عذر کی وجہ سے تیمم جائز نہیں ہے۔ جماع کے حلال ہونے کیلئے غسل ضروری ہے؛ اور تیمم صرف عبادات ادا کرنے کو حلال کر سکتا ہے۔ فرماتے ہیں: جب عبادات وغیرہ میں تیمم پانی کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔ لیکن وہ عورت اس حکم سے خارج ہوگی جس کا حیض کا خون منقطع ہوا ہو اور (پانی نہ ہونے کی وجہ سے) اس پر تیمم فرض ہو گیا ہو تو وہ اپنے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ غسل نہ کر لے، فرماتے ہیں: آدمی کیلئے اپنی اس بیوی سے جماع کرنا جائز نہیں ہے۔۔۔ جس کا حیض یا نفاس کا خون منقطع ہوا ہو اور اس نے تیمم کے ساتھ طہارت حاصل کی ہو ۔ کیونکہ اللہ تعالی ارشادِ گرامی ہے: [اور نہ نزدیک جایا کرو ان کے یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں]( ) یعنی پانی کے ساتھ ۔ ﴿فَأْتُوهُنَّ﴾ ( ) الآية ، تو آجاؤ ان کے پاس۔ امام خلیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نفاس کا حکم بھی حیض کی طرح ہے۔( )

والله سبحانه وتعالى

Share this:

Related Fatwas