حائضہ عورت کا حضور نبی اکرم ﷺ کے رو...

Egypt's Dar Al-Ifta

حائضہ عورت کا حضور نبی اکرم ﷺ کے روضۂ اقدس کی زیارت کرنا

Question

اگر کوئی عورت مدینۃ منورہ آتی ہے اور اقامہ کی مدت بھی پانچ یا چھ دن سے زیادہ نہیں ہوتی اور یہی دن اس کے حیض کے ہیں، تو کیا اس کے لئے رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں داخل ہونا ممنوع ہے یا آپ ﷺ کے روضۂ انور کی زیارت کی خاطر اندر جا سکتی ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد: جمہور فقہاۓ عظام کے نزدیک حائضہ عورت کیلئے مسجد میں ٹھہرنا جائز نہیں ہے؛ ہاں اگر مسجد میں خون گرنے کا ڈر نہ ہو تو مسجد میں سے گزر سکتی ہے، اور فقہاۓ عظام ضرورت اور حاجت کے وقت اس کے مسجد میں سے گزرنے کے جواز پر متفق ہیں۔

امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس مسئلہ میں علماء کرام رحمھم اللہ کا اختلاف ہے۔ "اصحابِ الرأی" فرماتے ہیں: جنبی عورت مسجد میں داخل نہیں ہوسکتی جب تک دو طہروں میں سے ایک نہ کر لے، امام سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے، پس اگر جنبی مسافر ہو کسی  ایسی مسجد کے پاس سے گزر رہا ہو جس کے اندر پانی کا کنواں ہو، تو پہلے تیمم کرے پھر مسجد میں داخل ہو کر پانی لے۔ امام مالک اور امام شافعی رحمھما اللہ فرماتے ہیں: اس کے کیلئے مسجد میں بیٹھنا جائز نہیں ہے، لیکن اس میں سے گزر سکتا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ قولِ باری تعالی: ﴿لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا﴾ ([1])کی یہ تعبیر کرتے ہیں: أن المراد به: "المسجد "وهو موضع الصلاة '' کہ یہاں صلاۃ سے مسجد یعنی نماز کی جگہ ہے، ابو عبیدہ بھی اس کی یہی تاویل کرتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور اہل ظاہر کی ایک جماعت جنبی کے مسجد میں داخل ہونے کو جائز قرار دیتی ہے مگر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وضوء کر لینا اس کیلئے مستحب ہے۔([2])

حجۃ الاسلام امام غزالی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مسجد میں اس شرط کے ساتھ ٹھہر سکتا ہے کہ جنبی نہ ہو؛ محدث (جس کا وضوء نہ ہو) کیلئے مسجد میں ٹھہرنا جائز ہے اور جنبی کیلئے اس میں سے گزرنا جائز ہے، اسے قریب ترین راستے سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہے، بغیر کسی مقصد کے مسجد کے سائیڈوں میں آنا جانا بھی اس کیلئے جائز نہیں ہے، اگر خون گرنے کا اندیشہ ہو تو حائضہ کیلئے اس میں سے گزرنا جائز نہیں ہے اور جس شخص کی خون والی نس (رگ) زخمی ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہے، اور اگر عورت کو خون گرنے کا اندیشہ نہ ہو تو اس میں تو حیض کا حکم شدید ہونے کی وجہ اس میں دو اقوال ہیں۔([3])

امام نووی شافعی رحمہ اللہ  "المجموع شرح المهذب"  میں فرماتے ہیں: صحیح قول یہ ہے کہ اگر اسے خون کے گرنے کا اندیشہ نہ ہو تو گزر سکتی ہے۔ واللہ اعلم۔   مذکورہ کتاب میں دوسری جگہ فرماتے ہیں: ٹھہرے بغیر اس کے گزرنے کے بارے میں امام شافعی رضی اللہ عنہ '' المختصر '' میں فرماتے ہیں " میرے نزدیک حائضہ عورت کا مسجد میں سے گزرنا مکروہ ہے " ۔ اور ہمارے اصحاب فرماتے ہیں: اگر خون کے غلبے وغیرہ کی وجہ سے اسے مسجد میں خون گرنے کا اندیشہ ہوتو مسجد سے گزرنا اس کیلئے بلا خلاف حرام ہے اور اگر یہ اندیشہ نہ ہو تو دو اقوال ہیں ان میں سے صحیح جواز کا قول ہے، امام ابنِ سریج اور امام ابو اسحاق اللمروزی کا یہی قول ہے اور مصنف اور البندنیجی اور بہت سے علماء نے اسے ہی صحیح قرار دیا ہے، باقی جمہور علماء کرام نے بھی اسے ہی صحیح قرار دیا ہے جیسے جنبی اور وہ آدمی جس کے جسم پر نجاست لگی ہو اور اسے مسجد میں نجاست گرنے کا اندیشہ نہ ہو، ان کا مسجد میں داخل ہونا جائزہے۔ صرف امام الحرمین ایک ہی ہیں جنہوں حائضہ کے مسجد سے گزرنے کو حرام قرار دیا ہے اگرچہ اسے خون گرنے کا اندیشہ نہ ہو، کیونکہ حیض کا حدث بہت غلیظ ہوتا ہے بخلاف جنبی کے۔ ہمارا مذہب پہلا مذہب ہی ہے ([4])

امام بیجوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر اسے خون گرنے کا اندیشہ ہوتو مسجد سے گزرنا اس کیلئے حرام ہے اگرچہ خون کی قلت کی وجہ سے ابھی خون موجود نہ ہو، یہاں خوف سے مراد یہ  ہے کہ جسے وہم ہو کہ خون گر جائے گا۔ اگر یہ ڈر نہ ہو تو اس کے لئے مسجد میں داخل ہونا حرام نہیں ہے بلکہ اس کے کیلئے داخل ہونا مکروہ ہوگا کیونکہ جنابت کے ساتھ مسجد میں داخل ہونا خلاف اولی ہے، ہاں اگر عذر ہوتو کراہت بھی ختم ہو جائے گی اور یہ خلاف اولی اسلئے ہے کہ یہ عذر کی وجہ سے جنابت کے ساتھ داخل ہورہی ہے۔ جس کے ساتھ بھی نجاست لگی ہوگی اس کا یہی حکم ہوگا؛ اگر نجاست سے مسجد خراب ہونے کا اندیشہ ہوتو داخلہ حرام ہو گا ورنہ مکروہ ہوگا اور اگر کسی عذر کی وجہ سے داخل ہورہا ہے تو مکروہ بھی نہیں ہوگا۔ یہی بات بعض تابعین کرام رحمھم اللہ نے فرمائی ہے۔ جیسے امام حسن اور امام ابنِ سیرین رحمھما اللہ ہیں۔ امام ابنِ ابو شیبہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب '' المصنف '' میں تخریج کیا ہے: امام حسن اور امام ابنِ سیرین رحمھما اللہ سے مروی ہے کہ جنبی اور حائضہ کا مسجد میں پانی چھڑکنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ امام احمد سے بھی یہی قول مروی ہے اور اہل ظاہر بھی یہی کہتے ہیں۔([5])

امام بغوی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں: امام احمد نے اس کیلئے مسجد میں ٹھہرنا جائز قرار دیا ہے اور امام مزنی کا بھی یہی قول ہے۔([6])

حافظ ابنِ رجب حنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: حائضہ کا وضو کر کے مسجد میں داخل ہونے کا حکم: امام احمد رحمہ اللہ نے اس پر نص قائم کی ہے کہ عورت کا حیض کی حالت میں وضو کر مسجد میں بیٹھنا جائز نہیں ہے؛ بخلاف جنبی ، وہ بیٹھ سکتا ہے ، اس قول کی ایک وجہ یہ ہے: اگر اسے مسجد میں خون گرنے کا خوف نہ ہوتو جائزہے۔([7])

الشيخ مغلطاي رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابن مسعود، ابن عبَّاس، ابن المسيَّب اورابن جبير رضی اللہ تعالی عنھم اسے مسجد سے گزرنے کی رخصت دی ہے اور اہل ظاہر بھی جنبی اور حائضہ کو مسجد میں داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں اور اسی طرح نفاس والی عورت کیلئے بھی جائز قرار دیتے ہیں۔ امام ابو محمد رحمہ اللہ فرمااتے ہیں: اس لئے جائز ہے کہ منع کرنے کی کوئی نہی وارد نہیں ہوئی ہے۔۔۔، امام احمد اور امام اسحاق رحمھما اللہ فرماتے ہیں: جنبی جب وضو کرلے تو اس کے لیے مسجد میں بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔([8])

امام بدر الدين العيني رحمہ اللہ فرماتے ہیں: امام احمد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ وضو کر کے جنبی کا مسجد میں ٹھہرنا جائز ہے۔ لیکن جمہور علماء کے نزدیک جائز نہیں ہے کیونکہ وضوء کا جنابت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اسلئے کہ وضو جنابت کو ختم نہیں کرسکتا۔امام حسن البصري، ابن المسيب، ابن جبير، اورابن دينار رحمھم اللہ سے بھی امام شافعي رضي الله عنه کی طرح  مسجد سے گزرنے کے جواز کا قول مروی ہے اور امام مزني، داود، اورابن المنذر فرماتے ہیں اس کیلئے مسجد میں ٹھہرنا مطلقا جائز ہے، اسی طرح امام زید بن اسلم کا بھی یہی قول ہے، ان علماء کے نزدیک مشرک بھی مسجد میں ٹھہر سکتا ہے، جب مشرک ٹھہر سکتا ہے تو مومن جنابت کی حالت میں بدرجہ اولی ٹھہر سکتا ہے اور انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے فرمان '' الْمُؤْمِنُ لَا يَنْجُسُ '' -متفق علیہ- یعنی مومن ناپاک نہیں ہوتا، کے ساتھ تعلیق لگائی ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت کرنا سب سے عظیم نیکی ہے اور سب سے مؤکد مستحب ہے، اور زیارت رسول ﷺ حاجیوں کیلئے حاجتِ مؤکدہ ہے؛ وہ نبی اکرم ﷺ کی زیارت کی خاطر طویل مسافت طے کر کے آتے ہیں؛ تاکہ ان احادیث نبویہ پر عمل پر عمل ہو سکے جو رسول اللہ ﷺ کے روضۂ انور کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں، اور انہیں سب حفاظ حدیث نے صحیح قرار دیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کے روضۂ انور کی زیارت کی خاطر مسجد نبوی میں داخل ہونا مسجد میں سے گزرنے کی طرح ہی ہے جو کہ جائز امر ہے۔

بعض فقہاء عظام نے اس بات پر نص قائم کی ہے کہ عذر کی وجہ سے حائضہ عورت کا طواف کرنا بھی مسجد سے گزرنے کی مانند  ہے، جو کہ جائز ہے؛ تو پھر اس بات میں کوئی شک نہیں رہتا کہ رسول اللہ ﷺ کے روضۂ اطہر کی زیارت کی غرض سے مسجد میں داخل ہونا بھی جائز ہے۔

علامہ ابنِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حائضہ کا طواف کرنا مسجد میں سے گزرنے کے قائم مقام ہے اور جب اسے خون گرنے کا اندیشہ نہ ہو تو مسجد سے گزرنا جائز ہے، اور بیت اللہ شریف کے گرد اس کا چکر لگانا گزرنے اور ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے سے نکلنے کی طرح ہی ہے، اگر کسی حاجت کی وجہ سے مسجد میں سے گزرنا جائز ہے تو پھر طوف کی غرض سے گزرنا بدرجہ اولی جائز ہو گا، کیونکہ طواف کی حاجت، صرف گزرنے کی حاجت سے بہت بڑی ہے۔([9])

اس بناء پر ہم کہیں گے کہ حائضہ عورت حیض کے ختم ہونے کا انتظار کرلے یا ڈاکٹر کے مشورے سے خون روکنے والی دوائی استعمال کرلے، اور پھر اس قول پر عمل کرلے جس کے مطابق حیض میں خون کا رک جانا طہر یعنی پاکی شمار ہوتا ہے۔ یہ حنابلہ اور مالکیہ کا قول ہے اور امام شافعی رضی اللہ عنہ کا قول تلفیق کے قول سے معروف ہے۔ بعض شافعیہ نے اسے راجح قرار دیا ہے۔ پھر یہ عورت غسل کرکے رسول اللہ ﷺ کے روضۂ اقدس کا دیدار کرے۔ اگر خون بند نہیں ہوا اور اسے یہ خوف ہو کہ خون بند ہونے سے پہلے قافلہ چلا جائے گا تو حیض کی حالت میں عورت رسول اللہ ﷺ کے روضۂ اقدس کا دیدار کرسکتی ہے، جب اسے مسجد میں خون گرنے کا ڈر نہ ہو۔ پس رسول اللہ ﷺ کے روضۂ اقدس کی دیدار کی خاطر اس کا مسجد میں داخل ہونا اس میں سے گزرنے کے قائم مقام ہوجائے گا۔

والله تعالى اعلم بالصواب۔

 


[1][النساء: 43]

[2]"معالم السنن" (1/ 77، ط. المطبعة العلمية)

[3]"الوسيط في المذهب" (2/ 185، ط. دار السلام)

[4]"المجموع شرح المهذب" (2/ 162، ط. دار الفكر)

[5]حاشية على شرح العلامة ابن قاسم الغزي على متن الشيخ أبي شجاع (1/ 148-14

[6]1/ 628 ط. دار إحياء التراث العربي

[7] "فتح الباري" (2/ 112، ط. مكتبة الغرباء الأثرية) 

[8]"شرح ابن ماجه" (1/ 880، ط. مكتبة نزار مصطفى الباز)

[9]"إعلام الموقعين" (3/ 24، ط. دار الكتب العلمية)

 

 

Share this:

Related Fatwas