مسجد میں باجماعت ذکر کرنا

Egypt's Dar Al-Ifta

مسجد میں باجماعت ذکر کرنا

Question

کچھ اہل تصوف ہفتے میں دو دن عشاء کی نماز کے بعد ایک ساتھ مل کر بآوازِ بلند اللہ تعالی کا ذکر کرتے ہیں، ان کے اس طرح جمع ہونے اور ذکر کرنے کا کیا حکم ہے؟ 

Answer

: الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد ! ذکر بالجہر کرنا اور اس کے کیلئے اجتماع کرنا کتاب و سنت سے بھی ثابت ہے اور امت کے عمل سے بھی ثابت ہے؛ اس کی مشروعیت پر علماء نے کافی کتب تصنیف کی ہیں، جیسے امام سیوطی رحمہ اللہ "نتيجة الفكر في الجهر بالذكر" اور امام أبو الحسنات لكھنوي رحمہ اللہ نے "ساحة الفكر في الجهر بالذكر" اور ان کے علاوہ دیگر علماء نے بھی کتب تصنیف کی ہیں۔
اللہ تعالی کے ذکر کا حکم اور رسول اللہ ﷺ پر صلاۃ و سلام کا حکم مطلقا ذکر کیے گئے ہیں، اور یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ امرِ مطلق زمان ومکان اور اشخاص واحوال کے عموم کو مستلزم ہوتا ہے؛ اس "امر" میں بہت وسعت ہوتی ہے اور بغیر کسی دلیل کے اسے کسی ایک طریقے کو چھوڑ کر دوسرے کے ساتھ مقید کرنا جائز نہیں ہوتا۔
ذکر کے بارے میں قرآنِ کریم میں جو مطلق دلائل وارد ہوئے ہیں یہ ہیں:
اللہ تعالی کا ارشادِ گرامی ہے : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا • وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا﴾) الأحزاب: 41-42( یعنی: اے ایمان والو! یاد کیا کرو اللہ تعالی کو کثرت سے اور اس کی پاکی بیان کیا کرو صبح شام۔
یہ مومنین کو خطاب ہے جو لوگوں کو اللہ تعالی کا ذکر کرنے کا حکم دیتا ہے، تو جیسے فردا ذکر کرنے سے تعمیل ہوتی ہے، اسی طرح جماعت کے ساتھ ذکر کرنے سے اس امر کی تعمیل ہوجاتی ہے
اللہ تعالی کا ارشادِ گرامی ہے : ﴿وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ﴾ )الكهف: 28) یعنی: اور روکے رکھیے اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح و شام طلبگار ہیں اس کی رضا کے۔
اس آیت میں کے ساتھ مل کر اللہ تعالی کو پکارنے کے حکم ہے؛ اس حکم کی تعمیل جیسے جماعت کے ساتھ مل کر اللہ تعالی کو پکارنے سے ہوتی ہے اسی طرح آمیں کہنے اور صرف حاضر ہونے سے بھی تعمیل ہو جاتی ہے۔
ذکر کے بارے میں حدیث پاک میں جو مطلق دلائل وارد ہوئے ہیں یہ ہیں:
امام بخاري و امام مسلم رحمھما اللہ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے ، آپ روایت کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوتا ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتا ہے اور جب وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جب وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو اسے اس سے بہتر مجلس میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ میرے ایک بالشت قریب آتا ہے تو میں اس کے ایک ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میرے ایک ہاتھ قریب آتا ہے تو میں اس کے دو ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آتا ہوں ۔ علامہ ابن ِ جزری رحمہ اللہ "مفتاح الحصن الحصين": فرماتے ہیں: اس حدیث مبارکہ میں ذکر بالجھر کے جواز کی دلیل ہے، ان لوگوں کے خلاف جو اس سے منع کرتے ہیں۔
امام سیوطی رحمہ اللہ نے "نتيجة الفكر في الجهر بالذكر" جو "الحاوي للفتاوي" کے ضمن میں شائع ہوئی ہے، میں فرماتے ہیں: باجماعت ذکر صرف جہرا ہی ہوتا ہے۔
اس کے بعد امام سیوطی رحمہ اللہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: یہ پچیس احادیث ذکر بالجہر پر دلالت کرتی ہیں پھر اس بات کو ثابت کرنے کیلئے فرماتے ہیں: جو احادیث مبارکہ ہم نے ذکر کی ہیں جب میں نے ان میں غور وفکر کیا تو مجھے پتا چلا کہ ذکر بالجہر میں قطعا کوئی کراہت نہیں ہے، بلکہ یہ احادیث تو اس کے مستحب ہونے کی دلیل ہیں۔ یہ دلالت یا تو صراحتا ہے یا پھر التزاما ہے، جیسے کہ ہم نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے، حدیث '' خيرُ الذِّكْرِ الخَفِيُّ '' یعنی بہتریں ذکر ذکرِ خفی ہے، کے ساتھ اس کا جو تعارض ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے جہرا قرآن مجید پڑھنے والی احادیث کا اس حدیث سے تعارض ہے '' المسرُّ بالقرآن كالمسرِّ بالصدقة '' یعنی آہستہ قرآن مجید پڑھنے والا چھپا کر صدقہ دینے والے کی طرح ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے دونوں احادیث کے درمیان اس طرح تطبیق کی ہے کہ جب ریاکاری کا اندیشہ ہو، یا نمازیوں اور سوئے ہوئے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہو تو مخفی قرات کرنا افضل ہو گا اور ان حالات کے علاوہ میں قرات بالجہر افضل ہوگی، کیونکہ اس پر کثرت سے عمل ہے اور اس لئے بھی کہ سامعین کو بھی اس کا فائدہ پہنچتا ہے اور اس لئے کہ اس سے قاری کا دل بیدار ہو جاتا ہے اور سوچنے لگتا ہے اور اپنی توجہ اس طرف پھیر لیتا ہے، نیند کو چھوڑ دیتا ہے اور مزید چست وچوبند ہوجاتا ہے۔ بعض علماء نے کہا ہے: مستحب یہ ہے کہ کچھ قرات باجہر کی جائے اور کچھ آہستہ آواز سے کی جائے۔ کیونکہ آہستہ پڑھنے والا کبھی تھک جاتا ہے اور چاہتا ہے کہ بلند آواز سے پڑھے اور آہستہ پڑھنے والا کبھی تھکتا ہے تو بلند آواز سے پڑھنے سے اسے راحت حاصل ہوتی ہے؛ ذکر کے بارے میں بھی ہم یہی تفصیل بیان کرتے ہیں؛ اور اسی سے دونوں احادیث کے درمیان تطبیق پیدا ہوتی ہے۔
خصوصا باجماعت ذکر بالجہر کے بارے میں بھی نبی اکرم ﷺ سے احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں، جیسے عیدین کی تکبیر کے بارے میں آپ ﷺ کا فرمان موجود ہے۔ سیدنا امام حسن بن سیدنا امام علی رضی اللہ تعالی عنھما سے مروی ہے، آپ رضی اللہ تعالی عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا کہ بہترین لباس زیبِ تن کریں اور بہترین خوشبو لگائیں اور بہترین موٹا تازہ جانور ذبح کریں۔۔۔۔۔ اور امن اور وقار کے ساتھ تکبیر کا اظہار کریں '' اس حدیث مبارکہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے "التاريخ" میں، امام حاكم نے "المستدرك"، اور امام طبراني نے "المعجم الكبير" میں روایت کیا ہے،اور امام حاكم نے "المستدرك" میں فرمایا: اگر اسحاق بن بزرج مجہول نہ ہوتے تو میں اس حدیث کو حدیثِ صحیح کہہ دیتا۔ آپ کے بعد ابن الملقن اور حافظ ابن حجر وغيره فرماتے ہیں: وہ مجہول نہیں ہیں بلکہ ابنِ حبان رحمہ اللہ نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔
ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنھما سے مروی ہے کہ '' عید الفطر اور عید الضحی کے دن رسول اللہ ﷺ بلند آواز سے تہلیل و تکبیر پڑھتے پڑھتے نکلتے یہاں تک کہ عیدگاہ میں پہنچ جاتے '' اس حدیث پاک کو امام حاکم اور امام بیہقی نے مرفوعا اور موقوفا روایت کیا ہے، لیکن امام بیہقی نے اس کے موقوف ہونے کو صحیح قرار دیا ہے امام حاکم '' المستدرک '' میں فرماتے ہیں: آئمہ حدیث نے یہی طریقہ رائج کیا ہےاور اس طرح عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے یہ روایت صحیح ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین سے بالجہر تکبیراتِ عید کا مسحب ہونا ثابت ہے، چاہے فرض نمازوں کے بعد کی تکبیریں ہوں یا مطلق تکبیر ہو جو ذی الحج کے چاند نظر آنے سے لے کر ایامِ تشریق کے آخر تک پڑھی جاتی ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں ہے '' سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ منی میں اپنے خیمے کے اندر تکبیر کہتے تو اہل مسجد آپ کی تکبیر سن لیتے تھے اور وہ بھی تکیر بلند کر کر دیتے اور اہل بازار بھی تکیر بلند کر دیا کر دیتے تھے تو یوں پورا منی تکبیر سے گونج اٹھتا تھا '' یہ روایت ذکر بالجہر کے بارے میں بالکل صریح ہے۔ بلکہ اس سے جماعت کا ہونا بھی ثابت ہوگیا؛ کیونکہ جماعت کے بغیر منی میں گونج پیدا نہیں ہو سکتی تھی، امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہ یعنی گونج کا پیدا ہونا باجماعت آوازوں کو بلند کرنے میں مبالغہ ہے۔

اسی طرح امام عینی اور امام شوکانی رحمھما اللہ "نيل الأوطار" میں کہا اور امام بیہقی رحمہ اللہ کی روایت میں اس سے زیادہ صراحت ہے: '' آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی تکبیر کو اہل بازار سن لیا کرتے تھے تو وہ بھی تکبیر بلند کر دیتے تھے یوں ایک ہی تکبیر سے سارا منی کونج اٹھتا تھا ''
صحیح بخاری شریف میں معلقا حدیث پاک مروی ہے '' سیدنا ابنِ عمر اوار سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنھم ذی الحج کے پہلے دس ایام میں بازار کی طرف نکلا کرتے تھے اور تکبیر کہا کرتے تھے اور آپ دونوں کے ساتھ لوگ بھی تکبیر کہا کرتے تھے '' امام فاکہی رحمہ اللہ نے اس کے ساتھ یہ الفاظ بھی بیان کیے ہیں کہ '' آپ دونوں تکبیر کہا کرتے تھے اور آپ کے ساتھ لوگ بھی تکبیر کہا کرتے تھے اور وہ بازار صرف اسی غرض سے آیا کرتے تھے '' ۔
یہ اور سابقہ دلائل باجماعت تکبیر پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتے ہیں؛
نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام کے بارے میں بھی اللہ تعالی کا حکم اسی طرح آیا ہے اللہ تعالی نے فرمایا : ﴿إِنَّ الله وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ )الأحزاب: 56( یعنی: بیشک اللہ تعالی اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس نبی مکرم پر اے ایمان والو! تم بھی آپ پر درود بھیجا کرو اور ( بڑے ادب و محبت سے ) سلام عرض کیا کرو۔
اس حکم کی تعمیل جماعت کے ساتھ درود و سلام پڑھنے سے بھی ہو جاتی ہے اور انفرادی طور پر پڑھنے سے بھی ہو جاتی ہے۔

اس بناء پر: باجماعت ذکر جائز امر ہے، چاہے مسجد میں یا غیرمسجد میں ہو ، اسے بدعت کہنا حقیقت میں بدعت ہے؛ کیونکہ ایسا کہنے سے اس امر میں تنگی پیدا کرنا ہے جسے شریعتِ مطہرہ نے وسعت دی ہے۔
والله سبحانه وتعالى اعلم۔

 


 

Share this:

Related Fatwas