فجر کی نماز سے آدھا گھنٹا پہلے اعل...

Egypt's Dar Al-Ifta

فجر کی نماز سے آدھا گھنٹا پہلے اعلان کرنا

Question

 مؤذن ہر روز صبح کی آذان نماز سے آدھے گھنٹے سے بھی زیادہ پہلے دے دیتے ہیں اور پھر تین تین بار اعلان کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ نماز فجر میں ابھی آدھا گھنٹنہ باقی ہے؛ اس کی وجہ میں عام لوگوں بچوں اور مریضوں کا سکون خراب ہوتا ہے، خصوصا جب گاؤں کی ساری مساجد ایک کے بعد دوسری میں ایسا ہوتا ہے۔ اس بارے میں شرعی حکم بیان فرمائیں۔

Answer

 الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد! امام بخاری اور امام مسلم رحمھما اللہ نے صحیحین میں سیدنا ابنِ عمر اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا والی حدیث سے روایت کیا ہے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: '' إِنَّ بِلالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ؛ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ '' یعنی:حضرت بلال رات کو آذان دے دیتے ہیں۔ پس ابنِ امِ مکتوم کی آذان تک کھاتے پیتے رہا کرو'' جمہور علماء عظام نے اس حدیث پاک سے یہ استدلال کیا ہے کہ وقتِ فجر سے پہلے آذان دینا مشروع ہے، اس پر امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری شریف میں ایک مکمل باب لکھا ہے اور فرمایا بَابُ الأَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ مگر اس سنت مطہرہ پر عمل کرتے وقت ہمیں لوگوں کے احوال کا خیال رکھنا چاہیے؛ کیونکہ'' لا ضرر ولا ضرار في الإسلام'' کی وجہ سے کسی کو تکلیف پہنچانا اسلام میں جائز نہیں ہے۔ کسی ایسے طریقے پر سارے گاؤں والے متفق ہو جائیں کہ حصولِ مطلوب کیلئے کافی ہو اور اس کا مطلوب روزے کو سحری کیلئے خبردار کرنا ہوتا ہے یا اس آدمی کو جو فجر سے پہلے وتر پڑھنا چاہتا ہو وغیرہ۔ اور یہ غرض اعلانات کے بغیر گاؤں کی مساجد میں آذان اول سے پوری ہوجاتی ہے، اور بغیر کسی کو تکلیف پہنچائے مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔
واللہ سبحانه وتعالى اعلم۔

Share this:

Related Fatwas