جنین کی طرف سے صدقۂ فطر

Egypt's Dar Al-Ifta

جنین کی طرف سے صدقۂ فطر

Question

 کیا جنین (جو بچہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہو) کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد!
1- زکاۃِ فطر کی تعریف:
زکاۃ فطر وہ زکاۃ ہے جسے عید الفطر کی نماز سے پہلے ادا کرنا واجب ہے۔ جس کی مقدار ملک کی عمومی خوراک میں سے ایک صاع ہے ۔ یہ مقدار ہر مسلمان فرد پر واجب ہے۔ کیونکہ سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنھما حدیث مبارکہ نقل فرماتے ہیں:'' أنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم فَرَضَ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى كُلِّ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى مِنَ الْمُسْلِمِينَ" أخرجه البخاري في "صحيحه". یعنی رسول اللہ ﷺ نے ہر آزاد، غلام، مرد اور عورت مسلمان پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو زکاۃ فطر واجب فرمائی ہے''
2- جمہور فقہاءِ عظام کے نزدیک جنین کی طرف سے زکاۃ فطر ادا کرنا واجب نہیں ہے،یہ احناف، شافعیہ اور مالکیہ کا مذہب ہے اور امام احمد کی ایک روایت بھی یہی ہے اور مصر میں مفتیٰ بہ قول بھی یہی ہے، اور اگر بچہ آخری رمضان کے غروبِ آفتاب سے پہلے پیدا ہوجائے تو اس کی طرف سے زکاۃِ فطر ادا کی جائے گی، اور اگر سورج غروب ہونے تک وہ ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں ہی ہے تو اس کی طرف سے زکاۃِ فطر ادا کرنا واجب نہیں ہو گا۔ اور احناف کا مذہب یہ ہے کہ اگر بچہ عید کی رات کو طلوع فجر سے پہلے پیدا ہوگیا تو اس کی طرف سے زکاۃِ فطر ادا کرنا واجب ہو گا۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ہمارے نزدیک بلا خلاف جنین کی زکاۃِ فطر نہ باپ پر واجب ہے اور نہ اس کے اپنے مال میں سے واجب ہے۔ اور اگر بچے کا بعض حصہ غروبِ آفتاب سے قبل ماں کی پیٹ سے باہر آگیا اور باقی حصہ غروبِ آفتاب کے بعد باہر آیا تو بھی اس کی زکاۃِ فطر واجب نہیں ہے؛ کیونکہ جب تک مکمل پیدائش نہیں ہوتی تب تک وہ جنین کے حکم میں ہے۔ اور یہ جو بات میں نے کہی ہے اس پر امام ابنِ منذر نے اجماع نقل کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے، فرماتے ہیں:علماء امصار سے جتنا بھی علم محفوظ کیا گیا ہے اس کے مطابق جنین کی طرف سے زکاۃِ فطر ادا کرنا واجب نہیں ہے۔( )
والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas