اوقاف کے انجینئر کی طرف سے مقرر کرد...

Egypt's Dar Al-Ifta

اوقاف کے انجینئر کی طرف سے مقرر کردہ جہت کے مطابق مسجد کےجہتِ قبلہ میں ترمیم کرنا

Question

گاؤں والوں نے ایک مسجد بنائی ہے جس کی تعمیر مکمل ہوگئی ہے اور تین سال پہلے اس کا افتتاح بھی ہوگیا ہے، انہوں نے کافی دقتِ نظری سے باقی مساجد کے مطابق اس مسجد کے قبلہ کی تعیین کی تھی اور اس میں شعائرِ اسلام صحیح طریقے سے ادا کئے جارہے ہیں؛ لیکن کچھ عرصے سے اس بات پر بحث ہورہی ہے آیا کہ مسجد کا قبلہ درست ہے یا کہ نہیں، لوگوں نے محکمہ اوقاف سے قبلہ کی سمت متعین کرنے والے انجینئیر کو بھی بلایا اور وہ آیا بھی اور اس نے قبلہ کی تعیین بھی کر دی۔ لیکن اب لوگوں میں باہمی اختلاف پیدا ہوگیا ہے کہ دو جہتوں میں سے کس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کریں؛ ایک فریق کہتا ہے کہ مسجد کی پہلی سمت کی طرف اور دوسرا فریق کہتا ہے کہ انجینئیر کے متعین کردہ سمت کی طرف منہ کرکے نماز ادا کریں گے۔
اس بارے میں شرعی حکم مطلوب ہے کہ ہم کون کسی سمت کی طرف منہ کر کے نماز ادا کریں؟
 

Answer

 الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد! اللہ تبارک و تعالی نے نماز مشروع کی ہے اور کلمہ طیبہ کے بعد اسے دین کا پہلہ رکن قرار دیا ہے؛ اس کی دلیل نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان عالی شان ہے:'' بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَحَجِّ الْبَيْتِ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ '' یعنی: اسلام کی اساس پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی گوہی دینا کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا '' رواه مسلم، اور الله تعالى کا ارشادِ گرامی ہے ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ﴾ (البقرة: 43) یعنی: اور صحیح ادا کرو نماز اور دیا کرو زکاۃ اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ ''
اور اللہ تعالی نے نماز میں مسجدِ حرام کی طرف منہ کرنا نماز کے صحیح ہونے کیلئے شرط قرار دیا ہے؛ تو جو مقیم ہو، حالتِ امن میں ہو اور فرض نماز ادا کر رہا ہو تو اس کی نماز تبھی صحیح ہوگی جب اس کا منہ قبلہ کی طرف ہوگا کیونکہ اللہ تبارک و تعالی کا ارشادِ گرامی ہے: ﴿فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ﴾[البقرة: 144]، یعنی: (لو) اب پھیر لو اپنا چہرہ مسجدِ حرام کی طرف اور(اے مسلمانو!) جہاں کہیں تم ہو پھیر لیا کرو اپنے منہ اس کی طرف ﴿وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ [البقرة: 149] یعنی: اور آپ جہاں سے بھی آپ (باہر) نکلیں تو موڑ لیا کریں(نماز کے وقت) اپنا رخ مسجدِ حرام کی طرف ''۔
حالتِ جنگ میں صلاۃِ خوف کی صورت میں اور سواری پر نفل ادا کرنے صورت میں قبلہ کی سمت معاف ہے ان دوصورتوں کے علاوہ کسی صورت میں بھی قبلہ کی بجائے کسی دوسری سمت منہ کرنا جائز نہیں ہے۔
مذکورہ سوال میں:گاؤں والوں پر اوقاف کے انجینئیر کی متعین کردہ سمت کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرنا لازم ہے کیونکہ وہی اس میدان میں اہلِ ذکر میں سے ہے؛ تاکہ اللہ تعالی اس فرمان پر عمل ہو سکے: ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ )النحل: 43( یعنی: پس دریافت کرلو اہل علم سے اگر تم خود نہیں جانتے ''
والله سبحانه وتعالى اعلم۔

 

Share this:

Related Fatwas