قسطوں پر بیچنا جب بیچنے والے کی نہ ...

Egypt's Dar Al-Ifta

قسطوں پر بیچنا جب بیچنے والے کی نہ دکان ہو اور نہ ہی اس کے پاس سامان ہو

Question

 ایک آدمی مارکیٹ سے سامان خریدتا ہے اور جسے قسطوں پر سامان درکار ہوتا ہے اسے فروخت کر دیتا ہے؛ مطلب یہ کہ اس کے پاس کسٹمر آتا ہے، اور کہتا ہے کہ اسے فلاں مارکیٹ سے فلاں چیز چاہیے، تو وہ آدمی اس کے ساتھ جاتا ہے، وہ شئی خرید کر زیادہ قیمت کے ساتھ اس کسٹمر کو بیچ دیتا ہے؛ یاد رہے کہ اس کی نہ تو کوئی دکان ہے اور نہ ہی اس کے پاس تجارت کا سامان ہوتا ہے۔ تو اس کا شرعی حکم کیا ہو گا؟

Answer

 الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد ! شرعا یہ بات مسلم ہے کہ نقد ثمن اور ثمنِ مؤجل کے ساتھ خرید و فروخت کرنا صحیح ہے؛ اور جمہور علماء کے مطابق مدتِ معینہ کے بدلے اصل قیمت میں زیادتی کرنا بھی شرعا جائز ہے۔ کیونکہ یہ زیادتی مرابحہ کے قبیل سے ہے، اور یہ بیع کی شرعا جائز انواع میں سے ایک ہے، جس میں مدت کے بدلے قیمت میں اضافے کی شرط لگائی جاتی ہے؛ چونکہ مدت اگرچہ حقیقت میں مال نہیں ہے مگر یہ مرابحہ کے باب سے ہے جس میں معینہ مدت کے بدلے قیمت میں اضافہ کیا جاتا ہے، جب مدت کی میعاد اور قیمت میں اضافہ بیان کر دیا جائے، اس کا مقصد دونوں کی رضامندی حاصل ہے، اور یہ اس لئے جائز ہے کہ اس میں کوئی شرعی مانع موجود نہیں ہے، اور لوگ اس طرح کاروبار کرنے کے ضرورت مند بھی ہیں۔
اس بناء پر ہم مذکورہ سوال میں کہیں گے کہ یہ شخص '' مڈل مین '' کی طرح ہے جو سامان خرید کر حقیقی یا حکمی طور پر اس کا مالک بن جاتا ہے پھر کسٹمر مدت معینہ کے بدلے زائد قیمت کے ساتھ اس سے یہ سامان قسطوں پرخرید لیتا ہے، یہ کام شرعا جائز ہے؛ اس کے پاس دکان یا سامان کا نہ ہونا اسے کوئی نقصان نہیں دیتا؛ اور جو ںصوص دینیہ اس چیز کی بیع سے منع کرتی ہیں جو انسان کے پاس نہ ہو اور جو چیز اس کی ملکیت یا قبضے میں نہ ہو، ان کا مقصد سامان کی ضمانت کا حصول اور لڑائی کے اندیشے سے دوری ہے؛ یہ سب سب کچھ مذکورہ واقعہ میں موجود ہے، کیونکہ تینوں اطراف میں کسی قسم کا کوئی تنازع نہیں ہے اور اگر ان مراحل میں سے کسی مرحلے میں کوئی نقصان واقع ہوجائے تو اس نقصان پر ضمان میں بھی کسی قسم کی کوئی الجھن موجود نہیں ہے ۔
والله سبحانه وتعالى اعلم۔

 

Share this:

Related Fatwas