میلادِ مصطفی ﷺ منانے کا جواز

Egypt's Dar Al-Ifta

میلادِ مصطفی ﷺ منانے کا جواز

Question

کیا میلادِ مصطفی ﷺ کے موقع پر جشن منانا جائزہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد: میلادِ مصطفی ﷺ کے موقع پر خوشی منانا حضور نبی اکرم ﷺ کی تعظیم اور آپ ﷺ سے محبت اور عقیدت کا اظہارہے۔ اور نبی اکرم ﷺ کےساتھ محبت رکھنا اور آپ کی تشریف آوری پر خوشی محسوس کرنا یقینا جائز ہے، کیونکہ میلاد پاک نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت پیدا کرتا ہے اور یہ محبت ایمان کا رکن ہے۔

امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت ایمان کے اصول میں سے ہے اور اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی محبت کو اپنی محبت کے ساتھ ملایا ہے، اور جو ان دونوں محبتوں پر کسی طبیعی محبت مثلا ماں باپ، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کی محبت کو مقدم کرتا ہے تو اللہ تعالی نے اسے وعید سنائی ہے۔ ([1])

میلادِ مصطفی ﷺ کے موقع پر جشن منانے کا مقصد: اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ایک جگہ جمع ہوں اور وہاں آپ ﷺ کا ذکرِ پاک کیا جاۓ، آپ ﷺ کی حمد و ثنا بیان کی جائے، اللہ تعالی کی راہ کی صدقہ خیرات کیا جائے، صوم و صلاۃ کا اہتمام کیا جائے اور نبی اکرم ﷺ سے محبت کا اعلان کیا جائے اور میلادِ مصطفی ﷺ کے دن خوشی کا اظہار کیا جائے۔

میلادِ مصطفی ﷺ کے موقع پر خوشی منانا کتاب و سنت سے جائز ہے اور اس مسئلے پر علماء کا اتفاق ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا: '' اور انہیں اللہ تعالی کے دن یاد کرایئے '' ([2]) اللہ تعالی کے ایام میں وہ دن شامل ہیں جب اللہ تعالی نے اپنے انبیاء کرام علی نبینا و علیھم الصلاۃ والسلام اور اولیاء رحمھم اللہ کی مدد نصرت کی اور وہ ایام بھی جن میں ان ہستیوں کی ولادتیں ہوئیں، تو ان سب ایام میں سے زیادہ عظمت والا دن وہی ہو گا جس میں نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی ہے۔

میلادِ ایامِ انبیاء علی نبینا و علیھم الصلاۃ والسلام کو اللہ تعالی نے خاص عزت بخشی ہے اور انہیں امن و سلامتی والے دن قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿وسَلَامٌ عليه يَومَ وُلِدَ﴾([3]) ''اور سلام ہو اس پر جس دن وہ پیدا ہوا '' اور یومِ میلاد نعمت ایجادِ نعمت کا دن ہے اور یہی نعمت اس کے بعد ہونے والی تمام نعمتوں کا سبب بنتی ہے اور یومِ میلادِ مصطفی دنیا و آخرت میں تمام نعمتوں کا سبب ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے: ﴿قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا﴾  ([4])

 اور نبی اکرم ﷺ ہی تمام مخلوق کیلئے نعمت عظمی ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما فرماتے ہیں: فضل اللہ سے مراد علم ہے اور رحمت سے مراد سیدنا محمد مصطفی ﷺ ہے ہیں، اور ارشاد باری تعالی ہے﴿وَمَا أَرْسَلْنَاك إِلَّا رَحْمَة للْعَالمين﴾ اور آپ کو تمام جہانوں کیلئے (سراپا) رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ([5]) یہ تفسیر ابو شیخ نے بیان کی ہے۔

امام مسلم رحمہ اللہ نےابو قتادہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے پیر کے دن روزے کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی تھی ''([6])  نبی اکرم ﷺ کا اپنی یوم ولادت کا روزہ رکھنا میلاد مصطفی ﷺ منانے کی جواز کی دلیل ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا '' اس دن تم کس مناسبت سے روزہ رکھتے ہو؟'' کہنے لگے یہ ایک عظیم دن ہے اس میں اللہ تعالی نے سیدنا موسی -علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام- اور آپؑ کی قوم کو نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: '' ہم موسی کے تم سے زیادہ حق دار ہیں '' تو آپ ﷺ نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا۔ ([7])

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ یہودیوں کے قریب سے گزرے جنہوں نے یومِ عاشوراء کا روزہ رکھا ہوا تھا تو آپ ﷺ نے پوچھا: '' یہ کون سا روزہ ہے؟ '' انہوں نے کہا: یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالی نے سیدنا موسی - علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام - اور آپؑ کی قوم کو غرق ہونے سے بچایا تھا اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا، اور اسی دن سیدنا نوح علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری تھی تو سیدنا نوح اور سیدنا موسی علی نبینا وعلیھما الصلاۃ والسلام نے اظہارِ تشکر کیلئے روزہ رکھا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: '' میں موسی کا زیادہ حق دار ہوں '' تو آپ ﷺ نے اپنے صحابہؓ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ أخرجه الإمام أحمد في "المسند"، وأبو الشيخ، وابن مردويه.

جب سیدنا نوح کی نجات اور سیدنا موسی علی نبینا وعلیھما الصلاۃ والسلام کی نصرت کے دن کو منانا جائز ہے تو نبی اکرم سیدنا محمد مصطفی ﷺ کے یوم ولادت کو منانا بدرجہ اولی جائز ہوگا۔

حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے آپ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ کسی غزوہ میں گئے اور جب واپس تشریف لائے تو ایک سیاہ پوش لونڈی حاضر خدمت ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ میں نے نذر مانی تھی کہ اگر آپ بحفاظت واپس تشریف لے آئے تو آپ کے سامنے دف بجاؤں گی اور گاؤں گی۔ تو آپ نے فرمایا: '' اگر تو نے نذر مانی تھی بجا لو ورنہ نہیں۔رواه ابن أبي شيبة في "المصنف"، والإمام أحمد في "المسند"، والترمذي في "الجامع" وصححه، وابن حبان في "صحيحه"، وصححه ابن القطان وابن الملقن في "البدر المنير" (9/ 546، ط. دار الهجرة).

آپ نے اپنے سلامتی کے ساتھ واپس تشریف لانے پر دف بجانے کی اجازت مرحمت فرمائی تو آپ کی اس دنیا میں تشریف آوری کے دن خوشی منانا بدرجہ اولی جائز ہوگا۔

علماء کرام کا اتفاق:

امام حافظ ابو شامہ المقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ بدعتِ حسنہ جائز اور مستحب ہے اور جس نے حسنِ نیت کے ساتھ اسے ادا کیا اس کیلئے ثواب کی امید ہے۔۔۔ اور ہمارے زمانے میں بدعتِ حسنہ یہ ہے جو '' اربل '' کے شہر میں میلادِ مصطفی کے دن صدقہ خیرات اور نیک اعمال کیے جاتے ہیں، زیب زینت کی جاتی ہے اور خوشی کا اظہار کیا جاتا ہےوغیرہوغیرہ۔۔۔ اس عمل کے ذریعے سے فقراء و مساکین پر احسان کے ساتھ ساتھ انسان کے دل میں نبی اکرم کی محبت پیدا ہوتی ہے، آپ کی عظمت اور آپ کی جلالت کی خبر ملتی ہے۔ اور اللہ تعالی کی اس نعمتِ عظمی پر اللہ تعالی کے شکر کا احساس پیدا ہوتا ہے جو رحمۃ اللعالمیں کی صورت میں اس نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔([8])

امام سخاوی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: تمام ممالک اور تمام شہروں میں مسلمان ہمیشہ سے میلاد مصطفی کے مہینے میں محفلیں کرتے ہیں اور عمدہ اشیاء کے ساتھ ضیافتیں کرتے ہیں، مختلف طریقے سے صدقہ خیرات کرتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ قرات مولد شریف کا اہتمام کرتے ہیں اور اس کی برکات کا ظہور ہوتا ہے اور یہ مجرب عمل ہے ([9])

اسی طرح امام قسطلاانی رحمہ اللہ نے "المواهب اللدنية اور علامہ دیار بکری رحمہ اللہ نے بھی "تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس صلى الله عليه وسلممیں فرمایا ہے۔

حافظ ناصر الدین دمشقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ثوبیہ کو میلاد مصطفی ﷺ کے دن آزاد کیا گیا تھا۔ مروی ہے کہ جب سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالی عنھا کے بطنِ مبارک سے سیدنا رسول اللہ ﷺ کی ولادتِ باسعادت ہوئی تو ثوبیہ اپنے مالک ابو لہب کو اس کے بھتیجے محمد ﷺ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی مبارکباد دی تو اس نے اسی وقت ثوبیہ کوآزاد کردیا۔ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ ثوبیہ ابو لہب کے پاس آئی اور کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے؟ تو ابو لہب نے کہا: تو آزاد ہے؛ تو پیر کے دن اس پرعذاب میں تخفیف کی جاتی ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ میلادِ النبی ﷺ پر خوش ہوا تھا اور اس نے لونڈی کو آزاد کیا تھا۔

 حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: جب ابو لہب مر گیا تو اس کے کسی گھر والے کو وہ بری حالت میں دیکھایا گیا، اس نے پوچھا: تیرے ساتھ کیا ہوا؟ ابولہب نے کہا: تمہارے بعد کسی قسم کی کوئی خیر نہیں ملی، مگر ثوبیہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے مجھے یہاں سے کچھ پلایا جاتا ہے اور اس انگوٹھے اور اس کے ساتھ والی انگلی کے درمیانی حصہ کی طرف اشارہ کیا۔۔۔

اور ابو لہب کو دیکھنے والے اس کے بھائی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ ابو لہب کی موت کے ایک سال بعد کی بات ہے۔([10])

اسی طرح آپ نے امام سیوطی رحمہ اللہ کی نقل کردہ رویت میں لکھا ہے: یہ بات صحیح ہے کہ ابو لہب کیلئے پیر کے دن عذاب میں تخفیف کی جاتی ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ کے میلاد کی خوشی میں اس نے ثوبیہ کو آزاد کیا تھا۔ پھر آپ نے ان کا یہ قول نقل کیا:

 إذا كان هذا كافــرًا جاء ذَمُّـــــــــــــــــــهُ ... وتبَّتْ يداه في الجحـيم مُخَلَّدا
أتى أنه في يوم الاثنـــــــــــــــــين دائمًـــا ... يخفف عنه للسرور بأحمـــــــدا

فما الظنُّ بالعبد الذي كان عمرَه ... بأحمدَ مسرورًا ومات موحدًا

جب وہ کافر جس کی مذمت قرانِ مجید نے بیان کی ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں جلے۔ ہمیشہ پیر کے دن اس کے عذاب میں تخیفف ہوتی ہے، کیونکہ وہ آمد مصطفی ﷺ پر خوش ہوا تھا۔ تو پھر اس بندۂ مومن کے بارے میں کیا خیال ہے جو ساری عمر آمدِ مصطفی ﷺ پر خوشی مناتا رہا اور عقیدۂ توحید پر فوت ہوا۔

چوتھی اور پانچویں صدی سے امتِ مصطفی ﷺ بغیر کسی انکار کے میلادِ مصطفی ﷺ مناتی چلی آ رہی ہے، اس رات کو لوگ بہت سے نیک کام کرتے ہیں، کھانا کھلاتے ہیں، صوم و صلاۃ کا ادا کرتے ہیں، تلاوتِ قرانِ مجید کرتے ہیں، ذکر اذکار کرتے ہیں اور حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں نعت کا ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اور بہت سے مؤرخین نے اس پر نص قائم کی ہے، جیسے حافظ ابنِ جوزی،ابنِ دحیہِ ابنِ کثیر، ابنِ حجراور امام سیوطی وغیرہ رحمھم اللہ تعالی۔

جمہور علماۓ اسلاف و اخلاف نے بھی میلادِ مصطفی ﷺ کے جواز پر نص قائم کی ہے اور کثیر علماء، محدثین اور فقہائے عظام نے اس عنوان پر بہت سی کتابیں لکھیں ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:

الحافظ ابن دحية نے "التنوير في مولد البشير النذير صلى الله عليه وسلم".
الحافظ العزفي نے "الدر المنظم في مولد النبي المعظم صلى الله عليه وسلم".
الإمام العلائي نے "الدرة السنية في مولد خير البرية صلى الله عليه وسلم".
الحافظ العراقي نے "المورد الهني في المولد السني".
الحافظ ابن ناصر الدين الدمشقي نے "مورد الصادي في مولد الهادي صلى الله عليه وسلم".
الحافظ الناجي نے "كنز الراغبين العفاة في الرمز إلى المولد المحمدي والوفاة".
الحافظ السيوطي نے "حسن المقصد في عمل المولد". 

اور ان کے علاوہ بہت سی کتب میلادِ مصطفی پر تصنیف کی گئی ہیں۔

امام صالحی رحمہ اللہ امام شیخ ابو موسی زرقانی رحمہ اللہ - جو کہ صالحین میں سے تھے - سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو اپنے خواب میں دیکھا اور آپ ﷺ سے یہ شکایت کی کچھ لوگ آپ ﷺ کا میلاد منانے کو بدعت کہتے ہیں۔ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جو ہم سے خوش ہوا ہم اس سے خوش ہوے'' ([11])

اس بناء پر میلادِ مصطفی ﷺ منانے سے آپ ﷺ کے ساتھ محبت اور آپ ﷺ کی تعظیم کا اظہار ہوتا ہے، یہ مستحب عمل ہے، قرآن و سنت کی روشنی میں جائز ہے، صدیوں سے مسلمان اسے مناتے چلے آ رہے ہیں اور اس کے مستحسن ہونے پر علماۓ عظام کا اتفاق ہے اور کسی نے انکار نہیں کیا۔

والله سبحانه وتعالى اعلم۔

 


[1]"فتح الباري" (1/ 48، ط. مكتبة الغرباء الأثرية)

[2]إبراهيم: 5

[3] مريم: 15

[4]يونس: 58]

[5]الأنبياء:107
[6]الصحیح المسلم

[7] متفق عليه.

[8]الباعث على إنكار البدع والحوادث" (1/ 23، ط. دار الهدى)

[9]الأجوبة المرضية" (1/ 1116، ط. دار الراية

[10]"جامع الآثار في السير ومولد المختار" (3/ 249-251، ط. أوقاف قطر):

[11]"سُبُلُ الهُدى والرشاد في سيرة خيرِ العِباد" (1/ 363، ط. دار الكتب العلمية)  

Share this:

Related Fatwas