فاسق کا جماعت کروانا

Egypt's Dar Al-Ifta

فاسق کا جماعت کروانا

Question

 گاؤں میں ایک مذہبی نوجوان رہتا ہے جو مسجد میں جماعت کرواتا ہے، اس کی سیرت اچھی ہے لیکن یہ سیاحتی میدان میں کام کرتا ہے اور شراب اور اس جیسی مشروبات شراب خانوں میں سپلائی کرتا ہے، بعض لوگ اس کے امام بننے پر اعتراض کرتے ہیں، اور ہمارے پاس اس سے بہتر کوئی آدمی نہیں ہے، تو کیا اس کا گاؤں کی مسجد میں نماز پڑھانا جائز ہے؟

Answer

 الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد! قاعدہ یہ ہے کہ جس کی اپنی نماز صحیح ہے اس کا جماعت کروانا بھی صحیح ہے؛ اسی وجہ سے حنفیہ اور شافعیہ رحمھم اللہ اجمعین کے مذہب کے مطابق فاسق کی امامت صحیح ہے؛ کیونکہ بہت سی احدیث وارد ہوئی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ہر نیک اور فاجر کے پیچھے نماز ادا کرنا صحیح ہے، اگرچہ یہ احادیث ضعیف ہیں لیکن یہ اپنے کثرتِ طرق کی وجہ سے ایک دوسری کو تقویت دیتی ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ وہؓ ظالم آئمہ کے پیچھے نماز ادا کرلیا کرتے تھے، تاہم فاسق کی امامت مکروہ ہوگی اگرچہ وہ راجح صفات کے ساتھ متصف ہو، مذکورہ حکم اس وقت ہوگا جب کوئی تنخواہ دار امام مقرر نہ ہو، اور اگر امام مقرر ہوتو امام کو دوسرے لوگوں پر مقدم کرنا ضروری ہے۔
اس بناء پر مذکورہ سوال میں: اگر امام مقرر ہے تو امام پر کسی دوسرے کو مقدم کرنا جائز نہیں ہے بلکہ امام کو دوسرے لوگوں پر مقدم کرنا ضروری ہے، اور اگر مقرر امام نہیں ہے تو اس شخص کے علاوہ جس کی بھی قرات اور نماز اچھی ہوگی اسے اس پر مقدم کیا جاۓ گا اور اگر ان چیزوں اس سے بہتر کوئی آدمی نہیں ہے تو پھر اسے مقدم کرنا واجب ہو گا اور اس کے پیچھے لوگوں کی نماز صحیح ہوگی بشرطیکہ وہ نماز کو اس کی شروط اور اس کے ارکان و واجبات کے ساتھ ادا کرے۔
والله سحانه وتعالى اعلم۔

 

Share this:

Related Fatwas