کرونا وائرس سے فوت ہونے والا شہید ش...

Egypt's Dar Al-Ifta

کرونا وائرس سے فوت ہونے والا شہید شمار کیا جاۓ گا

Question

کرونا وائرس نے چین کے بعض علاقوں پر حملہ کیا اور پھر دوسرے ممالک تک پھیل گیا، اور اس کی وجہ سے بہت سی اموات ہوئیں جن میں مسلم اور غیر مسلم شامل ہیں: تو جو کرونا وائرس کی وجہ سے فوت ہوئے کیا انہیں شہید کہا جائے گا؟ 

Answer

 الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبة ومن والاه، وبعد:
جیسا کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر رپورٹ کیا ہے کہ کرونا وائرس حیاتیاتی وائرس ہے، جو کہ اس بیماری سے متاثرہ جانوروں یا ان کے فضلہ سے یا وائرس آلود غذائیں چھونے سے یا سانس کے ذریعے سے لوگوں میں پھیلتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) کی ویب سائٹ کے مطابق اکثر کرونا وائرس کی پائی جانے والی علامات میں بخار، کھانسی اور سانس لینے میں تکلیف ہونا ہے
میڈیکل سائٹ (MedicineNet) کے مطابق پانچ میں سے چار مریض تندرست ہوجاتے ہیں اور پانچواں مریض شدید نمونیا یا گردوں کی خرابی کا شکار ہوجاتا ہے، اور ان میں اموات کی شرح دو فیصد کے قریب ہے۔
میڈیکل ریسرچ بتاتی ہیں کہ کرونا وائرس کے مریضوں میں سے ایک تہائی حصے میں اس کی علامات معدے سے ظاہر ہوتی ہیں جیسے کہ اسہال، متلی، الٹی اور پیٹ درد شامل ہے، جیسا کہ میڈیکل گائیڈ" The Merck Manuals (MSD). کی ویب سائٹ پر شائع ہوا ۔
یہ وائرس دسمبر کے آخر میں چین کے شہر ووہان میں ظاہر ہوا اور تیزی سے چین کے اندر اور باہر پھیل گیا جن میں مسلمان ممالک اور غیر مسلم ممالک بھی شامل ہیں، اور عالمی ادراہ صحت نے بتایا کہ اس وائرس سے متاثرین کی تعداد میں بہت اضافہ ہو چکا ہےجس کی وجہ عالمی سطح پر صحت کی ہنگامی صورتحال کا اعلان کرنے ضرورت پیش آئی، فتویٰ جاری ہونے کی تاریخ تک عالمی ادارہ صحت کے مطابق چین میں ایسے کیسز کی تعداد اسی ہزار بتائی گئی، جن میں دو ہزار سے زیادہ اموات بھی شامل ہیں،اور چین سے باہر تقریبا چھبیس ممالک میں مریضوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تک ہو گئی ہے جن میں سے آٹھ وفات پاچکے تھے، لیکن تنظیم نے اعلان کیا کہ یہ بیماری ابھی تک عالمی وباء کی سطح تک نہیں پہنچی۔


پس یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ شھداء کی تین اقسام ہیں:

اول: دنیا اور آخرت کا شہید: وہ شہید جو جنگوں، باغیوں یا ڈاکوؤں سے لڑائی میں مارا گیا، اور اسی شہید کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: " جو اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لئے لڑا پس وہ اللہ کی راہ میں ہے "۔ (متفق علیہ ) - من حدیث ابی موسی الاشعری رضی اللہ عنہ- اورشہادت کی اسی قسم کو شہادت حقیقیہ کہا جائے گا۔
دوم: دنیاوی شہید: وہ بھی اسی طرح قتل ہوتا ہے لیکن اس نے مالِ غنیمت میں خیانت کی ہوتی ہے وہ جو مدبر ہونے کی حالت میں قتل ہو جاۓ یا دکھاوے کیلئے لڑتا ہوا قتل ہوا ہو اور اسی طرح کے اور لوگ، پس ظاہری طور پر اور دنیاوی احکام میں وہ بھی شہید ہیں۔
سوم: آخرت کا شہید : یہ وہ شخص ہے جس کے لئے آخرت میں شہادت کا درجہ اور شہید کا اجر ہے، لیکن ان پر دنیا میں شہید کے احکام لاگو نہیں ہوتے، بلکہ اس کو غسل دیا جاۓ گا اور جنازہ پڑھا جاۓ گا اور یہ وہ لوگ ہیں جو پیٹ کی بیماری یا طاعون سے یا ڈوب کر فوت ہو جائیں ، اور شہادت کا یہ درجہ شہادتِ حکمیہ کہلاتاہے .
شریعت نے اس تیسری قسم میں بڑی وسعت رکھی ہے جس کی وجہ سے امت مصطفی ﷺ پر فضل الٰہی اور مومنوں کی حوصلہ افزائی کی خاطر شہادت کے بہت سے اسباب بن گئے ہیں اور اس میں مختلف انواع بن گئی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: تم شہید کسے سمجھتے ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کی : یارسول اللّٰہ، جو اللہ کی راہ میں قتل کردیا جائے وہ شہید ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس طرح تو میری امت کے شہید تھورڑے سے ہونگے۔ عرض کی: تو پھر اور کون ہیں یارسول اللہ؟ فرمایا: جو اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جائے وہ شہید ہے، جو اللہ کی راہ میں مارا جائے وہ بھی شہید ہے، جو طاعون کی بیماری کی وجہ سے فوت ہو جائے وہ بھی شہید، اور جو پیٹ کی بیماری کی وجہ سےفوت ہو جائے وہ بھی شہید ہے "۔
ابن مقسم نے فرمایا: کہ میں اس حدیث میں اپنے باپ پر گواہ ہوں انہوں نے فرمایا: ڈوب کر مرنے والا شہید ہے۔ رواہ مسلم فی صحیحہ۔
اسی حدیث مبارک کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک دوسرے طریق سے مرفوعا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان الفاظ سے روایت کیا: " شہداء پانچ ہیں: جو طاعون سے فوت ہو جاۓ، جو پیٹ کی بیماری سے فوت ہو جاۓ، جو ڈوب کو فوت ہو جاۓ، دب کو فوت ہو جاۓ اور جو شخص اللہ تعالی کی راہ میں قتل کردیا جاۓ۔
امام طبرانی اپنی دونوں معاجم " الکبیر " اور " الاوسط " میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت کرتے ہوئے ان الفاظ کا اضافہ کرتے ہیں کہ " السل شھادۃ " یعنی تب دق سے مرنے والا بھی شہید ہے۔
حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ بھی سات شہادتیں ہیں ، طاعون سے فوت ہونے والا شہید ہے، ڈوب کر مرنے والا شہیید ہے، سانس کی تکلیف سے فوت ہونے والا شہید ہے، پیت کی بیماری سے فوت ہونے والا شہید ہے، آگ میں جلنے والاشہید ہے، اور وہ جو عمارت کے نیچے دب کر فوت ہو جائے شہید ہے، اور وہ عورت جو حالت نفاس میں فوت ہوجاۓ شہید ہے " ۔ امام ابو داؤد اور دیگر آئمہ رحمۃ اللہ علیھم نے اسے روایت کیا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : " الحمی شھادۃ " یعنی بخار سے فوت ہونے والا شہید یے، امام دیلمی نے " مسند الفردوس " میں اسے نقل کیا اور امام حافظ سیوطی نے " الجامع الصغیر " میں سے صحیح قرار دیا۔
پس یہ متعدد اسباب اوران کے علاوہ بھی کچھ اسباب ہیں کہ جو لوگ صبر کرتے ہوۓ اور اللہ تعالی سے ثواب کی امید رکھتے ہوۓ ان میں سے کسی سبب سے فوت جائیں تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر فضل اپنے فضل سے ان کو شہید کا اجر عطا فرماۓ گا؛ کیاونکہ ان اسباب میں شدت، درد اور تکالیف کی زیادہ ہوتی ہے۔
امام ابو الولید الباجی " المنتقی شرح الموطأ " میں لکھتے ہیں: ان سے شہادت کی تمام اقسام کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کچھ کے متعلق بتایا : یہی وہ تمام اقسام ہیں جنہیں ان کے نزدیک شہید کہا گیا ہے، پس انہوں نے کہا: اللہ کی راہ میں قتال کرنا، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤمنین کی فرحت کے لئےاور انہیں یہ بتاتے ہوۓ کہ اللہ تعالیٰ کا ان پر فضل ہے، انہیں بتایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کے علاوہ بھی سات شہادتیں ہیں؛ کیونکہ شہادت کبھی بغیر جہاد کے بھی ہوتی ہے، اور امت محمدیہ کے شہداء حاضرین کے گمان سے بھی زیادہ ہیں۔۔۔اور ان اموات کا معاملہ پڑا سخت ہوتا ہے، لہذا اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ پر فضل فرمایا ان کے اجر میں زیادتی کرکے ان کے گناہوں کے لئے کفارہ بنا دیا ہے یہاں کہ انہیں مرتبہ شہادت تک پہنچا دیا ہے۔
امام نووی " شرح مسلم " میں فرماتے ہیں: " علماء کرام نے فرمایا کہ یہ اموات کی تکلیف اور کثرت درد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے شہادت بن گئیں ".

ان احادیث میں جو عدد بیان کئے گئے ہیں وہ مراد نہیں؛ کیونکہ علماء کی ایک جماعت نے بیان کیا کہ شہادت کی خوبیاں فقط ان خصوصیات میں ہی محدود نہیں بلکہ علماء نے ان کو اس سے زیادہ تک پہنچایا ہے: محمد بن زیاد الالھانی روایت کرتے ہیں:( ابی عنبہ الخولانی کے سامنے شہداء کا ذکر کیا گیا؛ تو انہوں نے پیٹ کے مریض، طاعون کے مریض اور نفاس والی عورتوں کا ذکر کیا: تو ابو عنبہ کو غصہ آ ہوگیا اور فرمایا: ہمارے نبی کے اصحاب نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرکے ہمیں بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: زمین میں اللہ کے شہید، اس کی مخلوق میں زمین میں اللہ تعالی کے امانتدار ہیں، قتل کیے گئے ہوں یا فوت ہو گئے ہوں). امام احمد نے اسے روایت کیا ہے۔
علامہ ابن منیر " المتواری علی ابواب البخاری " میں فرماتے ہیں: ( میرے نزدیک احتمال ہے کہ امام بخاری متنبہ کرنا چاہتے تھے کہ شہادت فقط قتل تک محدود نہیں بلکہ اس کے اور بھی اسباب ہیں، اور انہی اسباب کی تعداد احادیث میں مختلف ہے: پس بعض احادیث میں یہ تعداد پانچ ہے، اور یہی امام بخاری کے نزدیک صحیح ہے، اور ان کی شرائط کے ساتھ موافقت بھی رکھتی ہے، اور بعض احادیث میں تعداد سات ہے، اور یہ امام بخاری کی شرائط کے ساتھ موافقت نہیں رکھتی، اسی لئے انہوں نے اس سے آگاہ کرتے ہوۓ متنبہ کیا ہے کہ احادیث مبارکہ میں جو پانچ یا سات کے عدد وارد ہوۓ ہیں وہ تحدید کے معنی پر مبنی نہیں ہی کہ نہ بڑھ سکتے ہیں اور نہ کم ہوسکتے ہیں؛ بلکہ یہ اللہ تعالی نے جن کا ذکر کیا ہے ان میں سے خصوص کی خبر ہے اور ان کی تعداد کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
اور علامہ حافظ ابن حجر العسقلانی " فتح الباری " میں فرماتے ہیں: ( اور جو ظاہر ہو رہا ہے یہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے کم عدد کا علم دیا گیا، پھر اس سے زیادہ کا علم دیا گیا اور اسے کسی اور وقت میں ذکر کیا۔ پس اسے مقصد کسی شیئ میں حصر کا نہیں ہوتا، اس لئے ہمارے پاس اچھے طرق سے بیس سے زیادہ خصائل جمع ہوگئے)۔
علامہ الصنعانی " التنویر شرح الجامع الصغیر " میں فرماتے ہیں: (مجھے نہیں معلوم کہ ان شہداء کے علاوہ کسی اور جہت کی طرف کوئی گیا ہو، کیونکہ ایسی بیماریاں بھی ہیں جو ان مذکورہ بیماریوں سے بھی بڑی ہیں، اور احادیث میں جو شہداء کی تعداد ملتی ہے وہ چالیس تک پہنچی ہے).
کئی علماء نے شہادت کے اسباب پر تصانیف لکھی ہیں: ان میں الحافظ جلال الدین السیوطی نے اپنے رسالے " ابواب السعادۃ فی اسباب الزیادۃ " میں ان کے خصائل کو ستاون 57 تک پہنچایا ہے، اور علامہ السید عبداللّٰہ بن الصدیق الغماری نے اپنا رسالہ " اتحاف النبلاء بفضل الزیادۃ وانواع الشہداء "۔

اور تحقیقیت یہ ہے کہ شہادت ان خصائل کی خصوصیات تک ہی محدود نہیں ہے؛ بلکہ ان کے ساتھ وہ خصائل بھی ملحق ہوں گے جو ان کے معنی میں ہوں یا ان کے طریق سے ہو، اور امام تقی الدین السبکی رحمہ اللہ نے شہادت کام عام سببِ کلی مستنبط کیا ہے جو شہادت مختلف جزئی اسباب کو کو شامل ہے؛ پس انہوں نے " فتاویٰ " میں فرمایا: شہادت کی حقیقت کو جاننے کے بعد یہ بھی جان لو کہ اس کے کچھ اسباب ہیں ؛ پہلا : جہاد فی سبیل اللہ ہے جیسے ہم نے ذکر کیا، اور دوسرا : یہ اور اسباب ہیں جو حدیث میں آۓ ہیں۔۔۔اور ہم نے پہلے سبب میں ایسے امور پائے ہیں جو نہیں میں نہیں ہیں، پس ہم نے شارع کو دیکھا کہ اس نے ان میں سے ہر ایک کیلئے شہادت ثابت کر دی، پس ہمیں ایک امرِ عام وضع کرنا ہوگا جو ان سب کے درمیان مشترک ہو اور وہ یہ کہ : سبب خارجی سے ہونے والی موت کا درد، اور اگرچہ مراتب میں مختلف ہوں اور اس میں کچھ کے ساتھ اور چیزیں بھی شامل ہوجائیں۔
اسی بناء پر : کرونا وائرس سے ہونے والی موت بھی مختلف جہات سے شہادت کے اسباب میں سے ہے
اول : اس کی اذیت، اس کے شر کی شدت اور اس کے درد کی شدت، جنہیں علماء کرام نے منصوص علیہ خصوصیات میں شہادت کے اجر کی علت بنایا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
دوم : کرونا وائرس کا مرض بھی شہادت کا سبب کی ان بعض بیماریوں کے عام لغوی معنی میں داخل ہے جن پر نص وارد ہوئی ہے۔ مثلاً: پیٹ درد والا: علماء کی ایک جماعت کے نزدیک اس سے مراد وہ شخص ہے جسے پیٹ میں کوئی بھی شکایت ہو۔ جیسا کہ امام نووی نے " شرح مسلم " میں فرمایا۔
اور یہ حقائق کرونا وائرس کے مریضوں کی علامات میں ظاہر ہوتے ہیں مثلا : اسہال، متلی، الٹی اور پیٹ کا درد جیسے کہ پہلے بیان کیا گیا یے
سوم : کچھ ایسے امراض بھی ہیں جن کو شارع نے شہادت کے اسباب سے بنایا جیسے بخار اور تپ دق، اگر ان کی وجہ سے موت واقع ہو جاۓ تو وہ شہید ہو گا، اور اس کرونا مرض میں تو ان دونوں کی علامات اور ان سے بھی زیادہ دیگر اور شدید پیچیدگیوں والی علامات پائی جارہی ہیں۔
چہارم : بے شک احادیثِ شہادت نے ان امراض کو بیان کیا ہے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عھد میں معروف تھیں، اور ہپ احادیث شہادت کو صرف ان بیماریوں کے ساتھ خاص کرنے کیلئے نہیں آئیں، بلکہ اس بات سے بھی متنبہ کررہی ہیں کہ اس طرح کی اور بیماریاں بھی جو نسل در نسل لوگوں میں آئیں گی وہ بھی اسی حکم میں ہیں، اور یہ بیماری (کرونا وائرس) اس وقت معروف نہیں تھی، لیکن یہ بیماری شہادت کےبعض مسبَب امراض کی علامات میں مشارکت رکھتی ہے ؛ مثلاً: ”ذات الجنب“؛ وہ بیماری ہے : یہ سینے کے اطراف میں ایک گرم ورم ( ٹیومر) ہوتا ہے، اس کی علامات : گرم بخار ، کھانسی، سانس کا تنگ ہوجانا اور شدید درد ہے؛ جیسا کہ امام دہلوی - رحمہ اللہ - نے " لمعات التنقیح فی شرح مشکوٰۃ المصابیح " میں فرمایا۔
اور یہ وہی علامات ہیں جو کرونا وائرس میں عام ہیں۔
پنجم : بے شک کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی موت طاعون کے اسم کے میں آتی ہے ؛ بہت سے محققین اور اھل لغت کے نزدیک طاعون کا معنی : " مرض اور عام وباء ہے " ۔
امام الجوھری " الصحاح " (مادۃ " طعن") میں فرماتے ہیں : (طاعون :وہ موت جو وباء سے رونما ہو)۔
علامہ ابن الاثیر " النھایۃ " (مادۃ " طعن ") میں فرماتے ہیں : (طاعون : وہ عام مرض اور وباء ہے جو ہوا کو آلودہ اور پھر اس سے مزاج و بدن کو خراب ہوتے ہیں).
امام قرطبی " المفھم لما أشکل من تلخیص کتاب مسلم " میں فرماتے ہیں : ( مطعون : وہ شخص ہے جو طاعون کی وجہ سے فوت ہو جاۓ؛ اور یہ وباء ہے).
امام بدرالدین العینی " عمدۃ القاری " میں فرماتے ہیں: (طاعونکو اس لئے طاعون کہا جاتا کیوکہ یہ عمومی طور پر بیمار کرتی ہے اور تیزی سے ہلاک کرتی ہے، اور اسی طرح طاعون میں داخل ہو گی جس کی یہ لفظ صلاحیت رکھتا ہو).
اور امام جوہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (یہ طعن سے " فاعول " کے وزن پر ہے، لیکن اس کو اس کی اصل سے پھیر دیا گیا اور اسے موت کی علامت قرار دیا گیا جسے وبائی مرض کہا جاتا ہے).
امام خلیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (وباء ہی طاعون ہے اور کہا گیا ہے : یہ ہر عام بیماری ہے جو بہت سے لوگوں کو ایک ہی قسم کی ہوتی ہے، بخلاف دوسرے اوقات کے ؛ کیونکہ ان کے امراض مختلف ہیں).
اور اسی طرح فرمایا : ( اسے اس وزن پر اس لئے وضع کیا گیا تاکہ وہ عام موت پر دلالت کرے ) ۔
اور کرونا وائرس ، اگرچہ اسے عالمی وباء قرار نہیں بھی دیا گیا لیکن علاقائی وباء تو کہا جاسکتا ہے، اور اس کی وجہ سے جو فوت ہوا سے وہ وبا کی وجہ سے فوت ہو ہے، اور محققین کا کہنا ہے کہ ساری زمین کے علاوہ کسی ایک علاقے میں مرض کا پھیلنا ابھی وبائی ہی ہوتی ہے۔
امام النووی رحمہ اللہ " شرح المسلم " میں فرماتے ہیں : (اور کے متعلق وباء : امام خلیل اور دیگر نے کہا ہے کہ یہ طاعون ہے، اور فرمایا : وہ یہ ہر عام مرض ہے).
اور صحیح وہی ہے جو محققین نے فرمایا : یہ تام کرہ ارض پر نہیں بلکہ کسی ایک علاقے میں بہت سے لوگوں کے مرض کو کہتے ہیں اور یہ کثرت وغیرہ میں دوسری معمول کی بیماریوں سے مختلف ہے، وبائی بیماری ایک ہی نوع کی ہوتی ہے اور بقیہ اوقات کی بیماریاں مختلف ہوتی ہیں۔
پس اسی بناء اور اس سوال کی حقیقت کی بناء پر : کرونا وائرس کی وجہ سے موت اسلامی شریعت میں مذکور شہادت کی اسباب کے تحت داخل ہے؛ اس بناء پر کہ یہ اسباب، سبب خارجی سے واقع ہونے والی موت کے درد کے تحت جمع ہیں، پس یہ اسباب علی سبیل الحصر نہیں لاۓ گئے،بلکہ ان اسباب پر بھی متنبہ کر رہے ہیں جو ان اسباب کے معنی میں ہوں جیسے کبھی کوئی بیماری لوگوں میں پھیل جاتی ہے۔ اور اس بناء پر یہ بیماری بعض بیماریوں کے لغوی معنی کے عموم میں داخل ہے بعض کے ساتھ علامت میں شریک ہے، اور بعض کے ضرر اور خطرے کی شدت میں شامل ہے، لہٰذا، اس کا ان وباؤں میں شمار ہوگا جس کی وجہ سے اگر کوئی مسلمان فوت ہو جاۓ تو شہید ہوتا ہے، پس جو مسلمان اس کی وجہ سے فوت ہوا وہ شہید ہو گا؛ اللہ تعالی کی رحمت سے اس کیلئے آخرت میں شہادت کا اجر ہو گا؛ لیکن اس پر عام میت کے احکام لاگو ہوں گے یعنی اسے غسل دیا جاۓ گا، کفن پہنایا جاۓ گا، نمازِ جنازہ بھی ادا کی جاۓ گی اور دفن بھی کیا جاۓ گا۔
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔

Share this:

Related Fatwas