نصف شعبان کی رات کو " ليلة البراءة ...

Egypt's Dar Al-Ifta

نصف شعبان کی رات کو " ليلة البراءة " کہنا

Question

نصف شعبان کی رات کو ليلة البراءة کہنے کا کیا حکم ہے؟ 

Answer

الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبة ومن والاه، وبعد: نصف شعبان کی رات کو "ليلة البراءة" أو "الغفران" أو "القدر" کہنے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ اس کا معنئ مرادی یہ ہوتا ہے کہ یہ ایسی رات ہے جس میں خیر اور رزق لکھا جاتا ہے اور گناہ معاف کئے جاتے ہیں، اور یہ معنی شرعاً صحیح ہے اس حدیث مبارکہ کے بھی موافق ہے جو ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے مروی ہے آپ رضی اللہ تعالی عنھا بیان فرماتی ہیں: میں نے ایک رات کو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم موجود نہیں ہیں، تو میں آپ ﷺ کو تلاش کرنے کیلئے نکلی میں نے دیکھا کہ آپﷺ بقیع میں آسمان کی طرف سر مبارک اٹھاۓ ہوۓ ہیں، (مجھے دیکھ کر) آپ ﷺ نے فرمایا : «يَا عَائِشَةُ، أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ!»، فقُلْتُ: وَمَا بِي ذَلِكَ، وَلَكِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ، فَقَالَ: «إِنَّ اللهَ تَعَالَى يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعَرِ غَنَمِ كَلْبٍ -وهو اسم قبيلة-» رواه الترمذي وابن ماجه وأحمد۔ یعنی: اے عائشہ کیا تجھے یہ اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم تیرے ساتھ زیادتی کریں گے؟ تو میں نے عرض کی: مجھے یہ اندیشہ نہیں تھا، لیکن مجھے گمان ہوا کہ آپ ﷺ اپنی کسی بیوی کے پاس تشریف لائے ہوں گے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی اس رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور (قبیلہ) کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی بخشش فرماتا ہے۔
سیدنا علی بنِ ابی رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم سے رویت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: «إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا يَوْمَهَا؛ فَإِنَّ اللهَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَهُ؟ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ؟ أَلَا مُبْتَلًى فَأُعَافِيَهُ؟ أَلَا كَذَا، أَلَا كَذَا..؟ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ» رواه ابن ماجه. یعنی: جب نصف شعبان کی رات آۓ تو رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو؛ کیونکہ اس رات اللہ تعالی آسمانِ دنیا پر اترتا ہے اور فرماتا ہے: ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا اسے بخش دوں؟ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا اسے رزق عطا کروں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ اسے عافیت دے دوں؟ ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ایسا۔۔؟ حتی کہ فجر کے طلوع ہوجاتی ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas