کرونا کی وباء کی وجہ سے وقت سے پہلے زکاۃ ادا کرنا
Question
کرونا وائرس کی وباء پھیلنے کی وجہ سے پوری دنیا اس وقت معاشی بحران سے گزر رہی ہے اور اس وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے مصر سمیت دنیا بھرکے ممالک نے لوگوں کو گھروں میں رکھنے اور دکانوں کو بند کروانے جیسے اقدامات کئے ہیں جن کی وجہ سے بہت زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں، تو کیا ایسے حالات میں جن سے مصر اور دنیا کے دوسرے ممالک گزر رہے ہیں زکوٰۃ اپنے وقت سے پہلے دینا جائز ہے؟
Answer
الاستاذ الدکتور/ شوقی ابراھیم علام (مفتی اعظم دیار مصر العربیہ)
الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبة ومن والاه، وبعد:شریعہ اسلامیہ نے غرباء، مساکین اور محتاجوں کی کفالت کو زکوٰۃ کا اہم ترین مقصد قرار دیا ہے؛ کیونکہ کیونکہ ان کا ذکر آٹھ مصارف زکوٰۃ کے شروع میں آیا ہے؛ تاکہ اس بات کی تاکید ہو جاۓ کہ یہ لوگ زکاۃ کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ہیں؛ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ترجمہ: "صدقات (یعنی زکوٰۃ) تو فقراء اور محتاجوں اور کارکنانِ صدقات کا حق ہے۔ اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب مطلوب ہو اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے) میں اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے"۔ (سورۃ التوبة، آیت نمبر 60)
اور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللّہ عنہ کو یمن کی جانب بھیجتے وقت فرمایا : «پس اگر وہ تیری اطاعت کریں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان میں سے امیر لوگوں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں کو دی جائے گی» متفق علیہ
زکاۃ میں اصل یہ ہے کہ اس کی بناء فقراء کی مصلحت پر قائم ہے اور اس ادائیگی کی وجہ ضرورتمندوں کی محتاجی ہے، تاکہ مقصدِ تکافل حاصل ہو اور ذاتی انحصار حاصل ہو جاۓ، اور معارتی عدل کا اظہار ہو طبقاتی فرق کم ہو سکیں، اقتصادی مشاکل ختم ہوں، پیداوار کے وسائل میں اضافہ ہو اور بیروزگاری کی شرح میں کمی ہو؛ جس سے اقوام کے احوال میں بہتری آے گی اور تہذیبی اسباب کو تقویت ملے گی۔
مصر سمیت دنیا بھر کے ممالک میں کرونا وائرس کی انفیکشن کو روکنے کیلئے اختیار کیے جانے والے حفاظتی اقدامات کی وجہ سے دنیا جس معاشی بحران کی وجہ سے گزر رہی ہے اس نے لوگوں کی زندگیوں اور ان کے روزی روٹی کو منجمد کر دیا، غربت اور بھوک میں اضافہ کیا، اور ضروریات کو بڑھا دیا ہے؛ جس وجہ سے غریبوں اور مسکینوں کو بھی زکاۃ کے پیسوں کی اشد ضرورت ہے؛ تاکہ ان کی مدد اور ان سے ہمدردی ہوسکے، اور یہ صورتِ حال امیر اور صاحبِ حیثیت لوگوں سے غریبوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرنے کا تقاضا کر رہی ہے۔
سخت حالات کو سنبھالنے، ان میں مشاکل کو حل کرنے اور ضروریات کو پوری کرنے کیلئے شریعتِ اسلام کو امتیاز حاصل ہے، کیونکہ اس نے محض زکاۃ کا وقت آ جانے کے ساتھ امیر کے مال کی زکاۃ کو غریب کا حق قرار دے دیا ہے؛ زکاۃ دینے والے کے تاخیر کرنا غریب کے نقصان کا سبب نہ بنے، لیکن جب مصلحت کا تقاضا ہو تو اسے وقت پہلے ادا کرنا بھی جائز کیا ہے؛ مثلا بھوک، وباء اور جنگ کے حالات میں۔
شریعت مطہرہ نے یقین دلایا ہے کہ ان حالات میں خرچ کرنے کا ثواب زیادہ ہے، صدقہ دینے پر اجرِ عظیم ہے اور زکاۃ دینے کا دوہرا ثواب ہے؛ کیونکہ جس قدر بھوک زیادہ ہو، ضرورت کی شدت ہو اور جتنی تکلیف زیادہ ہو تو عطاء بھی اسی قدر باعث نفع ہوتی ہے، اور خرث کرنا رب کی رضا کا سبب بنتی ہے؛ پس اللہ تعالی نزدیک سب سے محبوب خرچ کیا ہوا مال وہ ہے جو ضرورتمندوں کی ضرورت کو زیادہ پورا کرنے والا ہو، اور زیادہ ثواب والی زکاۃ وہ ہے جو مصیبت زدہ لوگوں کو اس مصیبت سے نکالنے کا سبب بنے، اور بلاشبہ صدقے کا اجر اتنا ہی عظیم ہوتا ہے جس قدر مصیبت بڑی ہوتی ہے اور اس صدقے کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ پس اللہ تعالی نے تکلیف، مصیبت اور محتاجی کے حالات کو مشکلات سے گزرنے اور درجات کو بلند کرنے کا سبب بنایا ہے؛ پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے: ترجمہ : " پس وہ داخل ہی نہیں ہوا دشوار (خیر کی) گھاٹی میں، اور تم کیا سمجھے کہ گھاٹی کیا ہے، کسی کی گردن کا چھڑانا، یا بھوک کے دن کھانا کھلانا، یتیم رشتہ دار کو، یا فقیر خاکسار کو، پھر ان لوگوں میں سے بھی ہو جو ایمان لائے اور صبر کی نصیحت اور شفقت کرنے کی نصیحت کرتے رہے، یہی لوگ صاحب سعادت ہیں ". (سورۃ البلد، آیت 11 تا 18)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ترین اعمال میں سے شمار کیا ہے اور ایسا کرنے والوں کو اللہ کے محبوب لوگوں میں شمار کیا ہے، پس امام بخاری وامام مسلم رحمھما اللہ اپنی صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کے ساتھ خیانت کرتا یے، اور جو اپنے بھائی(مومن) کی حاجتروی میں ہوتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی حاجتروی فرماتا ہے، اور جو اپنے بھائی کی تکلیف کو دور کرتا تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی تکلیفوں سے نجات عطا فرماۓ گا، اور جو اپنے بھائی کا عیب چھپاتا تو اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے گا۔
حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّہ عنہ سے ہی مروی ہے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ شخص وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ تو کسی مسلمان کرے، یا کسی سے تکلیف دور کردے، یا اسکی طرف سے قرض ادا کردے، یا بھوکے کو کھانا کھلا دے، اور میرے نزدیک اس مسجد(یعنی مسجد نبوی) میں ایک ماہ اعتکاف سے بھی زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ میں کسی بھائی کی حاجت کے لئے اس کے ساتھ چلوں، اور جس نے اپنے ءصب کو روکا تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی پرہ پوشی فرماۓ گا، جس نے طاقت کے باوجود اپنے غصے کو پی لیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دل کو سلامتی سے بھر دے گا، اور جو اپنے بھائی کے ساتھ اس کی حاجت روائی کے لئے چلا یہاں تک کہ اسے مکمل کردیا تو اللہ تعالیٰ پل صراط پر اس کے قدموں کو ثابت رکھے گا اس دن جس دن سب کے قدم ڈگمگا رہے ہوں گے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے اپنی معاجم "الکبیر" و "الاوسط" و "الصغیر" میں ذکر کیا ہے.
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل ترین اعمال کے بارے میں پوچھا گیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «جس نے کسی مومن کو خوشی پہنچائی؛ یعنی: یعنی جب بھوک کے وقت اسے کھانا کھلایا ہو، یا اس کی طرف سے قرض ادا کیا ہو، یا دنیا میں اس سے کوئی تکلیف دور کی؛ تو اللہ تعالیٰ اسے آخرت کی تکالیف سے نجات دے گا، اور جس نے خوشحال کو مہلت دی یا تنگ دست سے درگزر کیا تو اللہ اسے اس دن سایہ عطا فرماۓ گا جس دن اس (اللہ) کے سائے کے علاوہ کسی کا سایہ نہ ہوگا، اور جو اپنے بھائی کے ساتھ اس کی حاجت پوری کرنے کے لئے گاؤں تک چل کر گیا؛ تو اللہ تعالیٰ اس دن اسے اس دن ثابت قدم رکھے گا جس دن (بہت سے) قدم ڈگمگا رہے ہوں گے، کیوںکہ تم میں کسی شخص کا اپنے مسلمان بھائی کی حاجتروی کے لئے اس کے ساتھ جانا میری اس مسجد(مسجد نبوی شریف) میں دو ماہ اعتکاف کرنے سے افضل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا» اس حدیث کو امام حاکم نے اپنی "المستدرک" میں ذکر کیا ہے۔
اور س قول پر فتویٰ یہ ہے کہ قحط، وباء اور دیگر مصائب زدہ حالات میں وقت سے پہلے زکاۃ دینا جائز ہے، اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ماخوذ ہے اور جمہور فقہاء کرام کا بھی یہی مذہب ہے:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے: «حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وقت سے پہلے زکوٰۃ دینے کے بارے میں استفسار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت عطا فرما دی»۔
امام احمد بن حنبل نے اپنی "المسند" میں اور امام ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ نے اپنی "السنن" میں اور ابن خزیمہ نے اپنی "صحیحہ" میں امام حاکم نے اپنی "المستدرک" میں اس حدیث کو ذکر کیا اور اسے صحیح قرار دیا۔
حضرت علی كرم الله وجهه سے ہی مروی ہے : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللّہ عنہ کو زکوٰۃ کی وصولی پر متعین فرمایا تو آپ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انکے مال کی زکوٰۃ کے متعلق سوال کیا، تو انہوں(عباس) نے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو سال کی زکاۃ پہلے ہی ادا کر دی تھی، تو حضرت عمر یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے چچا نے سچ کہا ہے، ہم نے ان سے دو سال کی زکوٰۃ پہلے لے لی تھی "۔ ابو عبید نے اپنی کتاب "الأموال" میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔
اس حدیث کی وجہ سے جمہور فقہاء نے زکاۃ دینے والے کو اجازت دی ہے کہ وہ مصارف زکوٰۃ کی مصلحت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مال کی زکوٰۃ کی ادائیگی وقت سے پہلے کر سکتا ہے اور ان میں بعض سے فقہاء نے تو مشکل حالات میں " تعجیل زکوٰۃ " کی مشروعیت پر نص قائم کی ہے اور زکاۃ اور باقی عبادات کے درمیان فرق کیا ہے جو اصل میں توقیفی ہوتی ہیں اور زکوٰۃ کی اساس رفق اور محتاجوں کی مصلحت ہوتی ہے:
امام خطابی شافعی "معالم السنن" میں فرماتے ہیں: [اور اس میں وقت سے پہلے زکوٰۃ دینے کے جواز کی دلیل ہے۔ کیونکہ جب کسی چیز میں انسان پر مہربانی کرتے ہوۓ مدت داخل کی جاۓ تو اسے اس کیلئے دستبردار ہو اور اس مہربانی کو ترک کرنا جائز ہے جیسا کہ کوئی انسان کسی دوسرے کا "حقِ مؤجل" جلدی کر دے اور مال غائب کی زکوٰۃ ادا کرنا اور اگرچہ اسے اسکے واجب ہونے کا یقین نہ ہو؛ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ مال اس وقت ضائع ہو چکا ہو]۔
احناف نے بھی صاحبِ نصاب کیلئے کئی سالوں کی زکاۃ "جلدی" دینا جائز قرار دیا ہے؛ کیونکہ "لاحق" "حاصل: کے تابع ہوتا ہے، انہوں یہاں تک فرمایا کہ اگر کسی کے پاس تین سو درھم ہوں تو اس نے دو سو درہم آنے والے بیس سالوں کی زکاۃ ایک سو زکوٰۃ دے دی تو جائز ہے۔
بہت سے متقدمین شافعیہ کا بھی یہی مذہب ہے کہ دو یا اس سے سالوں کی زکوٰۃ جلدی دے دینا صحیح ہے یہاں تک کہ اگر دس سالوں سے بھی زیادہ ہوتو بھی جائز ہے، بشرطیکہ "تعجیلِ زکاۃ" کے بعد نصاب یا اس سے زیادہ مال باقی رہے اور اسی پر نص ہے اور یہی اظہر قول ہے، اور حجۃ الاسلام امام غزالی- رحمہ اللہ - نے اسے صحیح کہا ہے اور دوسرے قول کے مطابق اگرچہ نصاب باقی نہ بھی رہے تو بھی جائز ہے۔
امام ماوردی شافعی "الحاوی" میں فرماتے ہیں: [اگر کوئی کہے کہ دو سالوں کی زکوٰۃ پہلے ادا کرنا تمہارے نزدیک جائز نہیں ہے۔ تو ہم کہیں گے: اس میں ہمارے اصحاب کے دو قول ہیں؛ ان میں سے ایک یہ ہے اور یہی اظہر قول ہے کہ کئی سالوں کی زکوٰۃ کی پہلے ادا کر دینا جائز ہے بشرطیکہ زکاۃ ادا کرنے کے بعد نصاب بعد باقی رہے۔۔۔ اور دوسرا قول: ایک سال سے زیادہ کی زکاۃ وقت سے پہلے ادا کرنا جائز نہیں]۔
امام نووی شافعی رحمہ اللہ "المجموع شرح المھذب" میں فرماتے ہیں: [اگر سال کے بعد دو سال یا اس سے زیادہ کی زکوٰۃ معجل دے دی تو اس میں دو قول ہیں: مصنف نے ان دونوں کو بمع دلیل ذکر کیا ہے اور وہ دونوں مشہور ہیں ؛ ان میں سے ایک: جائز ہے؛ حدیث کی وجہ سے، اور دوسرا قول: جائز نہیں ہے۔۔۔ پس علماء کی ایک جماعت نے جواز والے قول کو صحیح کہا ہے اور یہ قول ابو اسحاق مروزی کا ہے اور جنہوں نے اس کو صحیح کہا ہے ان میں : بندنیجی، اور غزالی نے "الوسیط" میں، جرجانی، شاشی اور عبدری شامل ہیں۔۔۔ پس جب ہم نے اسے جائز کہا تو ہمارے اصحاب نے اس پر اتفاق کیا کہ دو اور دو سے زیادہ سالوں میں کوئی فرق نہیں، حتی کہ اگر دس سال یا اس سے بھی زیادہ سالوں کی زکاۃ معجل دے بشرطیکہ " تعجیلِ زکاۃ " کے بعد نصاب باقی رہے۔۔۔۔ اور امام بغوی اور امام سرخسی نے ایک اور شاذ قول بیان کیا ہے کہ یہ بھی جائز ہے؛ کیونکہ معجل وہ ہوتی ہے جس میں ملک باقی ہے]۔
فقہاء حنابلہ کا مذہب بھی " تعجیل زکوٰۃ " کے جواز کا ہے بشرطیکہ زکاۃ دینے والے کے پاس نصاب کامل ہو؛
علامہ مرداوی "الانصاف" میں فرماتے ہیں: [جب نصاب مکمل ہو تو وقت سے پہلے زکوٰۃ دینا جائز ہے، یہی مذہب ہے اور ہمارے اصحاب اسی کے قائل ہیں، اور اس کو قطعی کہا ہے۔۔۔ امام احمد بن حنبل سے ایک جماعت نے اس بارے میں نقل کیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں]
اور ان میں سے بعض فقہاء کرام رحمھما اللہ نے مصلحت کی خاطر قحط اور مشکل حالات میں تعجیلِ زکاۃ کے جواز پر نص قائم کی ہے، اور اس کو علامہ مرداوی رحمہ اللہ نے اسی کو قوی قرار دیا ہے اور آپ "تصحیح الفروع" میں فرماتے ہیں : [جب فائدہ حصول ہو رہا ہو، یا قحط ہو اور شدید ضرورت ہو تو جائز ہے اس کے علاوہ جائز نہیں اور یہی اقوی ہے]
اس بناء پر مذکورہ سوال کے جواب میں ہم کہیں گے : غریبوں کا ساتھ دینے کیلئے، ضرورتمندوں کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اور
" تعجیلِ زکاۃ " کا تقاضا کرنے والی مصلحت پر عمل کرنے کیلئے موجودہ حالات میں جن سے مصر اور پوری دنیا گزر رہی ہے زکاۃ معجل ادا کرنا جائز ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم کی احادیث میں آیا ہے اور جمہور فقہاءِ کرام رحمھم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے اور اسی پر فتوی ہے؛ تاکہ اس مشکل وقت میں اعلی اخلاق کا اظہار ہو سکے، اوراس موجودہ صورتحال میں زکاۃ کا ثواب بھی بہت زیادہ ہو گا؛ کیونکہ اس وقت زکاۃ دینے میں کرب سے نجات، اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد اور بے سہاروں کی حاجت احسن انداز میں پوری ہوگی۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.