شوہر کا اپنی بیوی کو قطع رحمی پر مج...

Egypt's Dar Al-Ifta

شوہر کا اپنی بیوی کو قطع رحمی پر مجبور کرنا

Question

 میں نے تقریباً ایک سال پہلے اپنی بیٹی کی شادی کی تھی، لیکن اس کا شوہر اسے ہمارے خاندان سے ملنے سے روکتا ہے وہ نہ ماں باپ سے اور بہن بھائیوں سے ملنے دیتا ہے اور نہ ہی ماموں، خالاؤں،اور چاچوں اور پھوپھیوں سے اور نہ دادی سے ملنے دیتا ہے اور نہ اسے اس کی سہیلیوں سے ملنے دیتا ہے اور اسے ٹیلیفٖون سننے کی بھی اجازت نہیں دیتا، جب بھی کبھی مشکل کے ساتھ اس سے بات ہوئی ہے تو اس کا شوہر کہتا ہے کہ وہ بھی ہیڈفون لگا کر یا ریکارڈنگ کے ذریعے ہماری ساری باتیں سنتا ہے، نہ اسے ملنے کیلئے آنے دیتا ہے اور نہ ہی اسے ٹیلی فون کرنے کی اجازت دیتا ہے، تو کیا شوہر کیلئے جائز ہے کہ بیوی سے والدین اور رحم کے رشتوں سے قطع تعلقی کروا دے؟ اور کیا بیوی کے لئے جائز ہے کہ اپنے والدین کو چھوڑ دے اور " رحم " کے رشتوں سے قطع تعلقی کرلے؟

Answer

 الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد: شرعاً یہ بات مسلم ہے کہ صلہ رحمی کرنا واجب ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے: " اور اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا نیز رشتہ داروں سے بھی(مہربانی کرنا)"( البقرة: 83۔ ) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کے پا س ایک آدمی آیا اور عرض کی میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں، عرض کی پھر کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تیری ماں عرض کی پھر کون ؟آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تیری ماں عرض کی پھر کون آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تیرا باپ۔ رواه الشيخان وغيرهما.
اس لئے فقہاۓ احناف نے صراحتاً بیان کیا کہ اگر بیوی کے والدین اس کے پاس نہیں آ سکتے تو شوہر ہر جمعہ کے دن بیوی کو والدین کے پاس جانے سے نہ روکے۔ "الاختيار" میں یہی قولِ مختار ہے، اور نہ ہی والدین کو ہر جمعہ کے دن اس کے پاس آنے سے روک سکتا ہے جیسا کہ "التنوير" اور اس کی شرح میں بیان کیا گیا ہے؛ پس شوہر کی اجازت کے بغیر بھی بیوی ہفتے میں ایک بار اپنے والدین سے ملنے کیلئے جا سکتی ہے اسی طرح اگر باپ نہیں ہے تو دادے کو ملنے بھی جا سکتی ہے اور اسی طرح اگر ماں نہیں ہے تو دادی کو ملنے جا سکتی، مگر شوہر کی اجازت کے بغیر وہاں رات گزارنا اس کیلئے جائز نہیں ہے، اور مصر میں شرعی عدالت میں اسی قول پر عمل ہے، مرد کی حاکمیت اور بیوی کا اپنے والدین کو ملنے کیلئے جانا متعارض نہیں ہیں، اور نہ ہی شوہر کو یہ حق ہے کہ " امرِ اطاعت" کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوۓ بیوی کو ان کاموں سے روکے جو اس پر واجب ہیں؛ جیسا کہ اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ بیوی کو نماز، روزہ، زکاۃ، حج اور تمام واجبات سے روکے، اسی طرح والدین اور رحم کے رشتوں سے روکنا بھی اس کیلئے جائز نہیں ہے، بیوی کو " امرِ اطاعت" کے تحت شوہر کا یہ حق نہیں ہے کہ اسے معاشرے سے کاٹ کر ایک قیدی بنا کر رکھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ والی حدیث پاک میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: "عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ" اس حدیث پاک کو شیخین اور ان کے علاوہ دیگر آئمہ رحمھم اللہ نے روایت کیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا:" تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کیلئے سب سے بہتر ہے" اس حدیث پاک کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے، آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے آپ کے علاوہ اور آئمہ نے بھی اس حدیث پاک کو روایت کیا ہے۔
تو جب شوہر بالواسطہ یا بلا واسطہ قطع رحمی اور والدین کے ساتھ بدسلوکی کا حکم دے تو بیوی کیلئے اس کا یہ حکم ماننا واجب نہیں ہے؛ کیونکہ اس کی اطاعت کرنا نیک کاموں میں واجب ہے۔ اور بیوی، شوہر اور سسر ساس سب کو اللہ تعالی سے ڈرنا چاہیے، اللہ تعالی فرماتا ہے: "اگر وہ دونوں (پنچ) ارادہ کریں گے صلح کرانے کا تو موافقت پیدا کر دیگا اللہ تعالی میاں بیوی کے درمیان بے شک اللہ تعالی سب کچھ جاننے والا ہر بات سے باخبر ہے"
والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas