سلام اور تکبیرات نماز میں اونچی آوا...

Egypt's Dar Al-Ifta

سلام اور تکبیرات نماز میں اونچی آواز سے کہنا

Question

امام اور منفرد نمازی کیلئے سلام اور" تکبیراتِ انتقال " جہرًا کہنے کا کیا حکم ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ و السلام علی سيدنا رسول اللہ وعلى آله وصحبه و من والاه۔ وبعد: امام کیلئے اور جماعت بڑی ہونے کی صورت میں اگر امام کی اواز نہیں پہنچ رہی تو مکبر کیلئے سلام اور تکبیراتِ انتقال جہرًا کہنا مستحب ہے، مگر امام اور مکبر کے علاوہ کسی کے لئے بھی مستحب نہیں ہے؛ چاہے وہ مقتدی ہو یا اکیلے نماز ادا کرنے والا ہو۔
امام نووی رحمہ اللہ "المجموع شرح المهذب" (3/ 295، ط. دار الفكر) میں فرماتے ہیں: امام کیلئے مقتدیوں کو سنانے کی خاطر تکبیرِ تحریمہ اور تکبیراتِ انتقال جہراً کہنا مستحب ہے تاکہ انہیں اس کی نماز کی صحت کا علم ہو سکے، پس اگر مسجد بڑی ہو اور امام کی آواز سب لوگوں تک نہ پہنچ رہی ہو یا مرض وغیرہ کی وجہ سے اس کی آواز کمزور ہو یا ویسے ہی کمزور آواز والا ہو تو ایک مقتدی یا حسبِ ضرورت ایک سے زائد مقتدی اس کی آواز نمازیوں تک پہچائیں؛ کیونکہ صحیح حدیث مبارکہ ہے: [أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم صَلَّى فِي مَرَضِهِ بِالنَّاسِ وَأَبُو بَكْرٍ رضي الله عنه يُسْمِعُهُمْ التَّكْبِيرَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ مِنْ رِوَايَةِ عَائِشَةَ ... ] یعنی:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے اپنی طبیعت کی ناسازی کی حالت میں لوگوں کو نماز پڑھائی اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں کو تکبیر سنا رہے تھے۔ غیر امام کیلئے آہستہ تکبیر کہنا سنت ہے چاہے وہ مقتدی ہو یا منفرد ہو۔ اور آہستگی کی ادنی مقدار خود کو سنائی دینا ہے بشرطیکہ اس کی سماعت صحیح ہو اور کوئی عارضہ لاحق نہ ہو، یہی حکم قراءت، تکبیرات اور رکوع وغیرہ میں تسبیح کیلئے بھی عام ہے، اور تشہد، سلام اور دعاء چاہے فرضی نماز کے ہوں یا نفلی کے تب تک ادا شمار نہیں ہوں گی جب تک خود کو سنائی نہ دے بشرطیکہ اس کی سماعت صحیح ہو کوئی عارضہ لاحق نہ ہو۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas