تنخواہ کے عوض یورپ میں کسی چیرٹی کے...

Egypt's Dar Al-Ifta

تنخواہ کے عوض یورپ میں کسی چیرٹی کے ادارے میں کام کرنا

Question

کیا تنخواہ کے عوض یورپ میں چیرٹی اداروں میں جنرل ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنا اسلام میں جائز ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد! شریعتِ مطہرہ نے غیر مسلم کے ساتھ ہر اس کام میں سلامتی والا معاملہ کرنا مباح قرار دیا ہے جو کام حرام پر مشتمل نہ، شریعتِ مطہرہ نے غیر مسلم کے ساتھ احسان کرنے، اسے اس کا پورا حق دینے اور اس کے ساتھ سچ بولنے اور بھلائی کرنے کی ترغیب دلائی ہے؛ اللہ تعالی کا ارشادِ گرامی ہے ﴿لَا يَنْهَاكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ﴾ ]الممتحنة: 8[ یعنی: اللہ تعالی تمہیں ان لوگوں سے نہیں روکتا جنہوں نے تمہارے ساتھ دین کے معاملے میں جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے ملک سے نہیں نکالا کہ تم ان کے ساتھ بھلائی کرو اور ان کے ساتھ انصاف کرو۔''
اور رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم کا جب وصال ہوا تو آپ کی درع ایک یہودی کے پاس بطورِ رہن پڑی ہوئی تھی، اور سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجھہ نے کچھ کھجوروں کے عوض یہودی عورت کے ہاں کام کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کیلئے غیر مسلم کے ساتھ ہر کام میں سلامتی والا معاملہ کرنا جائز ہے جب تک یہ معاملات حرام پر یا مسلمان کی اہانت پر مشتمل نہ ہوں، خصوصا جب یہ معاملات بھلائی اور انسانی ترقی کیلئے تعاون پر مشتمل ہوں؛ کیونکہ ان معاملات کو بھی اللہ تعالی کا یہ فرمان شامل ہے: ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى﴾ [المائدة: 2]، یعنی: نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔'' اس میں لفظ عام ہے جو مسلمان اور غیر مسلم دونوں کو شامل ہے۔
اس بناء پر: سائل کیلئے یورپ کی کسی چیرٹی میں کام کرنا شرعا جائز ہے، بلکہ اگر نیت صحیح ہو تو یہ کام '' التعاون على البر والتقوى'' کی قبیل سے ہو جاۓ گا؛ کیونکہ انسانیت کی اصلاح، تکافل، انسانی ضرورتوں کو پورا کرنا اور انسان سے مصائب کو ختم کرنا بھی نیک اعمال میں سے ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas