سرکاری وقت سے پہلے کام چھوڑ کر چلے ...

Egypt's Dar Al-Ifta

سرکاری وقت سے پہلے کام چھوڑ کر چلے جانا

Question

کسی ذاتی کام کیلئے سرکاری وقت سے پہلے کام چھوڑ کر چلے جانے کا کیا حکم ہے؟ اور یہ کہ کیا یہ حکم رمضان المبارک اور دیگر مہینوں میں مختلف ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ و السلام علی سيدنا رسول اللہ و آلہ وصحبہ و من والاہ۔ وبعد: دینِ اسلام نے کام کو امانت قرار دیا ہے اور انسان کو امانت داری کا حکم دیا گیا ہے، ورنہ وہ خیانت کرنے ولا بن جاۓ گا؛ اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا ہے: ﴿إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا﴾ [النساء: 58]،یعنی: '' بے شک اللہ تعالی تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے مالکوں کو واپس کر دو''۔ اور اللہ تعالى فرماتا ہے: ﴿وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ﴾ [المؤمنون: 8]، یعنی: '' اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا خیال رکھتے ہیں''۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: «كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ» أخرجه البخاري. یعنی: ''تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم سب سے تمہاری رعایا کے بارے میں پوچھا جاۓ گا''۔ حکومتی یا غیر حکومتی ملازم بھی اپنے کام پر نگرن اور محافظ ہے اس سے بھی قیامت کے دن اس کے کام کے بارے میں پوچھا جاۓ گا۔
سرکاری وقت سے پہلے چلے جانا چاہے بغیر اجازت کے جاۓ یا جعلی اجازت سے جاۓ، اس میں اس کے سپرد کردہ کام کا نقصان ہو رہا ہے، یہ دینِ اسلام کے خلاف ہے؛ کیونکہ کام کیلئے مقرر کیا گیا وقت کام کا حق ہے اس پہلے چلے جانا جائز نہیں ہے سواۓ اس صورت کے کہ اسی کام کی خاطر جارہا ہو یا اجازت لے کر جا رہا ہو۔ اس حکم میں رمضان المبارک اور غیرِ رمضان المبارک میں کوئی فرق نہیں ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas