سابقہ طلاق ختم ہونے کا مسئلہ

Egypt's Dar Al-Ifta

سابقہ طلاق ختم ہونے کا مسئلہ

Question

 ایک آدمی نے اپنی بیوی کو دو مرتبہ طلاق بائن دی، پھر اس عورت نے کسی اور آدمی سے شادی کی، اور پھر اس سے بھی طلاق مل گئی اور دوبارہ پہلے شوہر سے نئے عقد اور نئے مہر کے ساتھ شادی کر لی، اب اس شوہر نے ایک بار پھر طلاق دے دی؛ تو کیا اس طلاق کو پہلی طلاق سمجھا جاۓ گا یا کہ یہ تیسری" بائن " طلاق ہوگی؟

Answer

 الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد: فقہاۓ اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ جس عورت کو تین طلاقیں دی گئی ہوں وہ اس وقت تک اس شوہر کیلئے حلال نہیں ہو سکتی جب تک کسی دوسرے آدمی سے شادی نہ کرے اور وہ شوہر اس کے ساتھ صحبت نہ کرلے۔
اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ اور شوہر اگر اسے تین طلاقیں دے دے تو دوسرا شوہر اس سے صحبت کے بعد طلاق دے دے تو یہ پہلے شوہر کے لئے نئی حلت کے ساتھ حلال ہوتی ہے یعنی: پہلا شوہر اگر اس سے شادی کرے گا تو اسے تین طلاقوں کا اختیار ہو گا۔
اسے فقہاء کی اصطلاح میں "مسألة هدم الطلاق"کہا جاتا ہے۔
اس صورت پر ابنِ منذر رحمہ اللہ نے اجماع نقل کیا ہے: آپ اپنی کتاب "الإجماع" میں فرماتے ہیں: اس بات پر اجماع ہے کہ اگر آزاد مرد اپنی آزاد بیوی کو تین طلاقیں دے دے اور وہ عدت گزارنے کے بعد کسی اور آدمی سے شادی کر لے اور اس نے اس عورت کے ساتھ صحبت کے بعد اسے جدا کر دیا اور اس کی عدت بھی گزر گئی، پھر پہلے شوہر نے اس سے نکاح کر لیا تو اسے تین طلاقوں کا اختیار ہوگا۔
اور اختلاف اس بات میں ہے کہ اگر شوہر نے اسے تین سے کم طلاقیں دی ہوں پھر اس نے کسی دوسرے آدمی سے شادی کی اور اس نے صحبت کی پھر اس کو طلاق دے دی، تو کیا اب پہلے کے پاس نئی حلت کے ساتھ آۓ گی یا کہ باقی ماندہ طلاقوں کے ساتھ۔یعنی شوہر کو تیں طلاقوں کا اختیار ہوگا یا کہ جتنی پہلی بار کے نکاح سے بچی تھیں اتنا ہی اختیارہو گا؟
مختار قول یہ ہے کہ دوبارہ عورت نئی حلت کے ساتھ آتی ہے اور شوہر کو تین طلاقوں کا اختیار ہوتا ہے، مذہبِ حنفی میں راجح قول یہی ہے، اور اصحابِ متون کا بھی یہی موقف ہے۔
امام ابنِ عابدین شامی رحمہ اللہ "رد المحتار على در المختار" میں فرماتے ہیں: حاصلِ کلام یہ ہے کہ شیخین – رحمھما اللہ - کے نزدیک دوسرا نکاح تین اور تین سے کم طلاقوں کو ختم کر دیتا ہے اور امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک صرف تین طلاقوں کو ختم کرتا ہے۔ اور ثمرۂ اختلاف یہ ہے کہ شیخین کے نزیک وہ رجوع کر سکتا ہے؛ کیونکہ دوسرے نکاح نے بقیہ طلاق کو ختم کر دیا ہے اور پہلے شوہر کے پاس نئے مِلک کے ساتھ آئی ہے اور اسے اب تین طلاقوں کا اختیار ہے۔۔۔۔۔۔لیکن متون امام اعظم کے راۓ پر ہی قائم ہیں۔ (یعنی: تین اسے تین طلاقوں کا اختیار ہوگا)
اس بناء پر: اگر یہ اگر یہ ثابت ہو جاۓ کہ دوسرے شوہر نے اس سے صحبت کرنے کے بعد اسے طلاق دی ہے اور اس نے پھر پہلے شوہر سے شادی کی ہے اور اس نے اسے ایک طلاق دی ہے تو یہ پہلی ہی طلاق شمار کرے گی نہ تیسری بائنہ طلاق شمار ہوگی؛ کیونکہ پہلے جو طلاقیں واقع ہوئی ہیں ہیں وہ دوسرے شوہر کی وجہ سے ساقط ہو گئی ہیں، اور اب یہ عورت پہلے شوہر کے پاس ایسے ہی آئی ہے جیسے اس نے سرے سے اسے کوئی طلاق دی ہی نہ ہو۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas