اسلام میں ہجرت کا تصور

Egypt's Dar Al-Ifta

اسلام میں ہجرت کا تصور

Question

تصورِ ہجرت کے بارے میں معاصر دینی نقطہ نظر ہے؟ کیا کسی غیر مسلم ملک میں رہنے والے مسلمان پر اپنے مسلم ملک کی طرف ہجرت کرنا واجب ہے جیسا کہ انتہا پسند فکر کے لوگ کہتے ہیں؟

Answer

انتہاپسند اور دہشتگرد گروہوں نے روایتی طور پر عام لوگوں میں ہجرت کے تصور کو دھندلا کر رکھ دیا ہے، ا وہ غیر مسلم ممالک میں رہنے والے ہر فرد کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اس ملک کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک چلے جائیں۔ تاکہ وہ اپنے دین کے ساتھ فرار ہو کر اپنے عقیدے کو محفوظ رکھ سکیں، اور ان کے زعم کے مطابق یہ عمل اسلام میں شرعی ہجرت کے تصور کے تحت آتا ہے ۔

سچ تو یہ ہے کہ ہجرت صورتِ حال کو بہترین میں تبدیل کرنے کا علم ہے تاکہ روحانی اور جسمانی طور پر ایک مربوط معاشرہ قائم کیا جا سکے۔ اور شاید یہی وہ مفہوم ہے جو فتح کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود تھا، جب آپ ﷺ نے فرمایا: فتح ( مکہ ) کے بعد ہجرت نہیں ہے، لیکن جہاد اور نیت ہے۔ روایتِ مسلم۔

یعنی فتح مکہ کے بعد ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو وطن سے ہجرت کا تقاضا کرتی ہو بلکہ اب برے افکار سے اچھے افکار کی طرف ہجرت مطلوب ہے اور جس چیز کا فساد اور جمود ثابت ہو چکا ہو اس سے اس چیز کی طرف ہجرت جس میں ہم خیر اور بھلائی دیکھتے ہوں۔ اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ ہوں، اور مہاجر وہ ہے جو اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں کو چھوڑ دے۔" روایتِ امام بخاری ۔

Share this:

Related Fatwas