اسلام میں جہاد کی حقیقت

Egypt's Dar Al-Ifta

اسلام میں جہاد کی حقیقت

Question

کیا موجودہ دور میں فریضۂ جہاد کو معطل کر دیا گیا ہے لہٰذا اس کا احیاء کرنا یا دوبارہ فعال کرنا واجب ہے؟ اور اس فعل کا اختیار کس کے پاس ہے؟

Answer

جہاد ایک ایسا محکم فریضہ ہے جس سے منع کرنا تو درکنار اسے معطل بھی نہیں جا سکتا، اور اس فریضے کی کچھ شروط ضوابط ہوتی ہیں جن کا تعین أمت اسلامیہ کے اربابِ اختیار ہی کرتے ہیں، ہر کس وناکس پر یہ معاملہ پر نہیں چھوڑا جا سکتا، اور علمائے شریعتِ مطہرہ نے کئی کتابوں میں ان شروط   اورقیود کا ذکر کیا ہے۔ لہٰذا جب جہاد میں اس کے ضوابط اور شرعی مقاصد کا خیال نہ رکھا گیا ہو تو اس کو جہاد نہیں کہا جاۓ گا، بلکہ یہ فساد، یا غدر اور خیانت بن جاتا ہے، لہٰذا ہر جنگ کو جہاد نہیں کہا جا سکتا۔

مسلم ممالک میں انتہا پسند گروہ اور تحریکیں جو قتل عام کرتی ہیں، یا غیر مسلم ممالک میں خودکش کی کارروائیاں کرتی ہیں، یا دہشتگردی اور گمراہ طرزِ عمل پر عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں جتنی بھی تخریب کار سرگرمیاں کرتی ہیں، وہ سب شریعت میں حرام  ہیں، انسانی اور قانونی طور پر جرم ہیں۔ ان سب کو ظلم شمار کیاجاۓ گا جسے قوت کے ساتھ روکنا واجب ہے اور شرعی نصوص میں حکم دیا گیا ہے کہ اس کو پسپا کرو اور اگر وہ ان ذلت آمیز حرکتوں سے باز نہ آئیں جس سے پوری دنیا، مسلمان اور غیر مسلم سب متاثر ہوتے ہیں تو ان سے جنگ کرو ۔

جہاں تک ان کے کاموں پر لفظ جہاد کے إطلاق کرنے کا تعلق ہے تو یہ ایک دھوکے اور فریب کے سوا کچھ نہیں ہے،  وہ لوگوں اور کمزور ذہنوں کو دھوکہ دے کر اس فساد اور تخریب کاری کے قائل کر نے کیلئے ایسا کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو باغی شمار کیا جاۓ گا اگر وہ طاقت اور قوت رکھتے  ہوں تو ان سے تب تک قتال کیا جائے گا جب تک کہ وہ اپنی سرکشی اور دہشتگردی سے باز نہ آجائیں۔

Share this:

Related Fatwas