فتویٰ کی اہمیت اور مفتی کی حیثیت

Egypt's Dar Al-Ifta

فتویٰ کی اہمیت اور مفتی کی حیثیت

Question

اسلامی شریعت کے مطابق ریاست میں اسلامی ممالک کے مفتی کے فتویٰ کی حیثیت کیا ہے ؟  

Answer

الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد: فقہاء اور علماء کے اقوال سے ماخوذ ہے کہ فتویٰ عموم اور شمول ہر جہت سے میں اسلامی ادلہ کے " مقتضیٰ " کے مطابق اللہ تعالی کے حکم کا بیان ہوتا ہے ۔.
امت میں مفتی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قائم مقام ہوتا ہے ، کیونکہ علماء کرام ہی انبیاء کرام علی نبینا ،علیھل الصلاۃ والسلام کے وارث ہیں ، اور حدیث پاک میں اس پر دلیل موجود ہے:«وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، وَإِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ» أخرجه أبو داود في "سننه"، " بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ امام ابو داود نے اس حدیث پاک کو اپنی " سنن " میں نقل کیا ہے۔.
اور اس لئے بھی کہ مفتی احکام کی تبلیغ میں نائب ہوتا ہے؛ حدیث شریف میں ہے: «أَلَا لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الْغَائِبَ»، یعنی: سن لو! جو حاضر ہے وہ غائب تک پہنچا دے۔ اور فرمایا:«بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً» أخرجهما البخاري في "صحيحه"، یعنی: میری طرف سے لے کر آگے پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو۔ اور فرمایا: «تَسمَعُونَ ويُسمَعُ منكم، ويُسمَعُ ممن يَسمَعُ مِنكُم» أخرجه أبو داود في "سننه"، یعنی: تم مجھ سے سن رہے ہو، اور تم سے بھی سنا جائے گا، پھر تم سے سننے والوں سے بھی سنا جائے گا۔
اور اگر ایسا ہے تو ، مفتی کا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کے قائم مقام ہونے کا یہی مطلب ہے ، اور فتویٰ ایک بہت عظیم کام ہے، اور بہت بڑا مقام ہے اور اس کام کی بہت بڑی فضیلت ہے کیونکہ مفتی انبیاء کرام علی نبینا وعلیھم الصلاۃ والسلام کا وارث ہے اور یہ فرض کفایہ ادا کر رہا ہے۔
فقہاء کرام کا اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ علم حاصل کرنا اور فتویٰ دینا فرضِ کفایہ ہے ، اگر مسئول عنہ واقعہ کے وقت صرف ایک ہی عالم موجود ہو تو فرض اس پر متعین ہو جاتا ہے، جب کوئی فتوی طلب کیا جاۓ اور اس کے علاوہ اس علاقے میں کوئی اور مفتی نہیں ہے تو جواب دینا اس مفتی پر متعین ہو جاۓ گا اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور مفتی بھی ہو استفتاء کے وقت موجود بھی ہو تو پھر جواب دینا دونوں کے کے حق میں فرضِ کفایہ ہو گا اور اگر استفتاء کے وقت موجود نہ ہو تو دو قول ہیں: 1- جو موجود ہے جواب دینا اس پر متعین نہیں ہو گا۔ 2- متعین ہو جاۓ گا۔
چونکہ فتوی محض مسئول عنہ واقعہ کے متعلق حکم کا اظہار ہے لہٰذ اس میں قوتِ "الزام" (کسی پر یہ حکم لازم کرنا) نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر فتوی مستفتی کیلئے اس پر عمل کرنا لازم کردیتا ہے۔
1- مستفتی کا فتوے پر عمل کرنے کی ذمہ داری لینا ۔
2- اس کا اس سے ظاہر ہونے والے حکم کو نافذ کرنے کا آغاز کر دینا۔
3- جب اس فتوی کے صحت اور وثوق پر اس کا دل مطمئن ہو جاۓ تو اس پر لازم ہو جاتا ہے۔
4- اگر اس نے واقعہ کا حکم جاننے کا عزم کیا اور اسے ایک کے علاوہ اور کوئی مفتی نہیں ملا تو اسی کے فتوے پر عمل کرنا اس لازم ہو جاۓ گا، اگر ایک اور مفتی اسے مل جاتا ہے اور دونوں فتوے ایک دوسرے کے موافق ہیں تو اس حکم پر عمل کرنا اس پر لازم ہے اور اگر دونوں میں حکم مختلف ہو تو جس کا فتوی اسے حق پر معلوم ہوتا ہو تو اس پر عمل کرنا لازم ہوگا اور اگر اسے حق معلوم نہ ہو سکے اور کسی اور مفتی سے ان فتووں کے متعلق پوچھنا بھی اس کے لئے آسان نہ ہو تو جس مفتی کی دینداری اور باعمل ہونے کے متعلق اس کا دل مطمئن ہو اس کے فتوے پر عمل کرے؛ کیونکہ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: «اسْتَفْتِ نَفْسَكَ.. وَإِنْ أَفْتَاكَ النَّاسُ وَأَفْتَوْكَ» أخرجه الإمام أحمد في "مسنده". یعنی: اپنے دل سے پوچھا کرو۔۔ اگرچہ لوگ تمہیں اس کے برخلاف ہی فتوی دے رہے ہوں۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas