جہاد میں امام یا سربراہ مملکت کی اج...

Egypt's Dar Al-Ifta

جہاد میں امام یا سربراہ مملکت کی اجازت

Question

کیا جہاد کے لیے امام یا سربراہ مملکت کی اجازت شرط نہیں ہے ؟ اور ایسا کہنا کتنا خطرناک ہے ؟

Answer

جواب:

امام یا سربراہ مملکت کی اجازت جہاد کی شرائط میں سے ایک شرط ہے اور یہ بدیہی چیز ہے جس میں زیادہ کلام کی ضرورت ہی نہیں اور قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ بنی اسرائیل کے رہنماؤں نے  جہاد کا جب ارادہ کیا تو سب سے پہلے  انہوں ایسے امام کی موجودگی کا مطالبہ کیا جس کے ساتھ مل کر اور اس کا حکم مان کر وہ لڑ سکیں، اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ﴾ [البقرة: 246] " کیا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو موسیٰ کے بعد نہیں دیکھا، جب انہوں نے اپنے نبی سے کہا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم اللہ کی راہ میں لڑیں"،قدیم و جدید علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امت اسلامیہ میں جہاد کا دارومدارامام المسلمین  ہونے کی حیثیت سے رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس پر تھا،  اور آپ ﷺ کے بعد یہ کام مسلمانوں کے ولی امر کے سپرد ہوگا اور مسلمانوں پر یہ لازم ہے کہ وہ جہاد کے احکام میں بھی ویسے ہی اپنے حکمران کا حکم مانیں جیسے دیگر امور میں مانتے ہیں۔ پس جس طرح صرف امام یا اس کے نائب کو جدید ریاستی قوانین کے مطابق معاہدوں کو پورا کرنےکا اختیار ہے  اسی طرح اعلانِ جنگ کا بھی اسے ہی اختیار ہے۔ اور جنگ میں سربراہ مملکت کی اطاعت نہ کرنا اس کی حق تلفی ہے جو سزا کا مستحق بناتی ہے کیونکہ ایسا کرنا امت کو بہت بڑے خطرے سے دوچار کرے گا جس کےبرے نتائج ہونگے۔

Share this:

Related Fatwas