مسلمانوں کا سنِ عیسوی کو منانا اور ...

Egypt's Dar Al-Ifta

مسلمانوں کا سنِ عیسوی کو منانا اور غیرمسلموں کو اس کی مبارکباد دینا

Question

 کیا مسلمانوں کیلئے عیسائیوں کے ساتھ سنِ عیسوی کو منانا اور سال کی ابتداء میں انہیں مبارکباد دینا جائز ہے؟

Answer

 الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبة ومن والاه، وبعد:مسلمان اللہ تعالی اور اس کے سارے پیغمبروں مانتے ہیں اور ان میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے اور ان کی پیدائش کے ایام پر خوش ہوتے ہیں ، اور اللہ تعالی نےرسولوں کو بشریت کی ہدایت کیلئے اور انہیں نور اور رحمت بنا کر بھیجا ہے اس کی نعمت پر شکر لاتے ہوئے ان دنوں کو مناتے ہیں کیونکہ بشریت پر یہ نعمت اللہ تعالی بہت بڑی نعمت اور جس ایام میں انبیاء اور پیغمبر پیدا ہوئے وہ دنیا کے لئے سلامتی کے دن ہیں۔ اور خداتعالیٰ نے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے؛ جیسا کہ سیدنا یحیی صلی اللہ علی نبینا وعلیہ وسلم کے بارے میں اللہ نے فرمایا: ﴿وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا﴾ [مريم: 15]، یعنی: " اور سلام ہو ان پر جس روز وہ پیدا ہوۓ، اور جس دن وفات پائیں گے اور جس روز زندہ کر کے اٹھاۓ جائیں گے" اور سيدنا عيسى کے بارے میں فرمایا: ﴿وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا﴾ [مريم: 33]، یعنی: " اور سلام ہو مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا اور جس روز مجھے موت آۓ گی اور جس روز مجھے زندہ کر کے اٹھایا جاۓ گا" اوراللہ تعالى نے فرمایا: ﴿سَلَامٌ عَلَى نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ﴾ [الصافات: 79]، یعنی: " سلام ہو نوح پر تمام جہانوں میں" اور اللہ تعالى نے فرمایا: ﴿سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ﴾ [الصافات: 109]، یعنی:" اور سلام ہو ابراہیم پر" پھر اللہ تعالى نے فرمایا: ﴿سَلَامٌ عَلَى مُوسَى وَهَارُونَ﴾ [الصافات: 120]، یعنی: " سلام ہو موسی پر اور ہارون پر" یہاں تک کہ اللہ تعالى نے فرمایا: ﴿وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ۝ وَالْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ [الصافات: 181-182]یعنی: " اور سلام ہو رسولوں پر اور تمام تعریفیں اللہ تعالی کیلئے ہیں".
تو جب معاملہ اس طرح ہے تو ان کیلئے خوشی کا اظہار کرنا، اور ان کی بعثت پر اللہ تعالی کا شکر بجا لانا، ان کی آمد کے دن کو منانا اور ان کی تعظیم میں خوش ہونا سب جائز ہے، بلکہ یہ قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالی کی نعمت پر خوشی اور اظہارِ تشکر کا معنی پایا جا رہا ہے ۔
جس دن سیدنا موسی ۔علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام۔ کو فرعون سے نجات ملی اس دن کو ہمارے پیا رے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے روزہ رکھ کر منایا؛ امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت کیا ہے: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم لما قدم المدينة وجد اليهود يصومون يومًا -يعني: عاشوراء-، فقالوا: هذا يوم عظيم، وهو يوم نجى الله فيه موسى، وأغرق آل فرعون، فصام موسى شكرًا لله، فقال: «أَنَا أَوْلَى بِمُوسَى مِنْهُمْ» فصامه وأمر بصيامه. یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم جب مدینہ طیبہ تشریف لاۓ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی ایک دن ۔ یعنی عاشورہ کے دن۔ روزہ رکھتے ہیں، پس وہ کہنے لگے کہ یہ عظیم دن ہے، یہی وہ دن ہے جس میں اللہ تعالی نے حضرت موسی کو نجات دی اورآلِ فرعون کو غرق کیا، تو حضرت موسی نے اللہ تعالی کا شکر بجا لاتے ہوۓ اس دن روزہ رکھا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں موسی کا ان سے زیادہ حقدار ہوں۔ تو آپ ﷺ نے روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم بھی فرمایا۔ اور آپ ﷺ نے سیدنا موسی ۔علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام۔ کے نجات کے دن کی خوشی میں شریک ہونے کو یہودیوں کے ان عقائد میں شریک ہونا قرار نہیں دیا جو عقیدۂ اسلام کے خلاف ہیں۔
اس بناء پر: مسلمانوں کیلئے سیدنا عیسیٰ ۔علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام۔ کا میلاد منانا جائز ہے، اس میں کسی قسم کی حرمت نہیں ہے؛ اس لئے کہ اس میں آپ ۔علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام۔ کی آمد پر خوشی کا اظہار ہے، جیسا کہ اس میں اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء بھی ہے؛ کیونکہ آپ ﷺ نے سیدنا عیسی ۔علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام۔ کے بارے میں فرمایا: "أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ فِى الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ" رواه البخاري. میں دنیا اور آخرت میں عیسیٰ کا زیادہ حقدار ہوں، اور میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے" اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔
یہ ہے حکم مسلمانوں کیلئے اس دن کو منانے کا، رہی بات مسلمانوں کا ان عیسائیوں کو مبارکباد دینے کی جو ہم وطن ہیں اور جن کے ساتھ ان کا باہم رہن سہن ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے چاہے اس موقع پر اس کے علاوہ کسی اور موقع پر دے، خصوصاً وہ غیر مسلم شہری جن کی مسلمانوں کے ساتھ صلہ رحمی، قرابت، ہمسائیگی،رفاقت یا ان کے علاوہ کوئی اور انسانی رشتہ ہو، خصوصاً جب وہ بھی مسلمانوں کی عیدوں کے موقع پر انہیں مبارکباد دیتے ہوں؛ کیونکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :﴿وَإِذَا حُيِّيْتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا﴾ [النساء: 86] یعنی:'' جب تمہیں سلام کیا جاۓ تو جواباً تم بھی سلام کہو اس سے بہتر طریقے سے یا اسی طریقے سے'' اور اس میں ان کے کسی بھی ایسے عقیدے کا اقرار نہیں ہوتا جو شریعتِ اسلام کے خلاف ہو، بلکہ یہ نیکی اور انصاف ہے جسے اللہ تعالی پسند فرماتا ہے؛ اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا : ﴿لَا يَنْهَاكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ﴾ ]الممتحنة: 8[ یعنی: اللہ تعالی تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جو دین کے معاملے تم سے نہیں لڑے، اور نہ انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم ان کے ساتھ بھلائی کرو، اور ان سے انصاف کا معاملہ کرو بیشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے''۔ پس یہ آیتِ کریمہ باہمی رہن سہن کا اقرار کر رہی ہے، اوربتا رہی ہے کہ غیرمسلموں سے صلہ رحمی کرنا، ان سے نیکی کرنا، انہیں تحائف دینا اور ان سے تحائف قبول کرنا اور ان پر احسان کرنا یہ سب کچھ شرعاً مستحب ہے؛ امام قرطبی رحمہ اللہ نے " أحكام القرآن" (18/ 59، ط. دار الكتب المصرية) : میں فرمایا ہے: اللہ تَعَالَى:کا فرمان ﴿أَنْ تَبَرُّوهُمْ﴾ کا معنی ہے: جو لوگ تم سے نہیں لڑے اللہ تعالی تمہیں ان کے ساتھ نیکی کرنے سے نہیں روکتا۔۔۔۔۔۔ اور ﴿وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ﴾ کا معنی ہے: تم انہیں صلہ رحمی کی وجہ سے اپنے مالوں میں سے ایک حصہ دو۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

 

Share this:

Related Fatwas