بعض شعائر اسلام سے دشمنی رکھنے کا ح...

Egypt's Dar Al-Ifta

بعض شعائر اسلام سے دشمنی رکھنے کا حکم

Question

جو لوگ دفاتر اور جن جگہوں میں کام کیا جاتا ہے ان میں بعض دینی شعائر مثلا اذان دینے اور باجماعت نماز ادا کرنے کی مخالفت کرتے ہیں اور کھیل کے میدانوں میں سورت فاتحہ پڑھتنے سے روکتے ہیں ان کا کیا حکم ہے ؟ 

Answer

جواب: فضيلة الأستاذ الدكتور علي جمعة محمد

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد: آذان اور با جماعت نماز جیسے دینی شعائر کا اظہار کرنا -جن کو ورک پلیسز اور دفاتر سے باہر ادا کیے جانے کی وجہ سے کفایت ہو جاتی ہے- ایسا امر ہے جو دفاتر وغیرہ جیسی جگہوں کے نظامِ عام کو تسلیم کرتا ہے۔ جب کوئی نظام اس بات کی ضمانت دے کہ یہاں مسلمان وقت پر نمازِ فرض ادا کرسکتے ہیں، اور یہ نظام نماز ادا کرنے سے منع نہیں کرتا تو اس پر کوئی حرج نہیں کہ وہ اکیلے نماز ادا کرے یا با جماعت اور کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ آذان دے یا نہ دے جب تک ادارے سے باہر کی آواز ہر ایک تک پہنچ رہی ہو، اور جب دینی شعائر کا اظہار ان اداروں پر موقوف نہ ہو بلکہ ان شعائر کا اظہار عموما ہو رہا ہو، تاکہ شرعی امور کی وجہ سے کام کے مفادات میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ کیونکہ آذان اصل میں سنت کفایہ ہے اور کثیر فقہاء کے نزدیک جماعت بھی سنت ہے۔ اسی طرح کوئی حرج نہیں ہو گی جب تک ان اداروں کا نظام مجمع علیہ قول کی مخالفت نہ کرے اور اسلام کے قطعی امور میں خلل پیدا نہ کرئے اور شریعت مطہرہ کے دائرہ حدود سے باہر بھی نہ نکلے تو کام کی نوعیت کے پیشِ نظر اس نظام کا لوگوں کے لئے کچھ حدود متعین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
کھیل کے میدان وغیرہ میں سورتِ فاتحہ پڑھنا ان دلائل کے عموم کی وجہ سے جائز اور مشروع ہے جو قرآن مجید کی تلاوت، اللہ تعالی کی حمد وثناء اور دعا سورتِ فاتحہ کی تلاوت کے مستحب ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ امام دارِ قطنی اور امام حاکم رحمھما اللہ تعالی نے سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے اور ابو شیخ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب '' الثواب '' میں امام عطاء رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "إذا أردت حاجة فاقرأ بفاتحة الكتاب حتى تختمها تُقْضَى إن شاء الله". یعنی جب تجھے کوئی حاجت درپیش ہو تو سورتِ فاتحہ پڑھو جب سورت مکمل ہو گی تو حاجت بھی پوری ہو جائے گی ان شاء اللہ تعالی۔
اللہ تعالی کے ذکر ، اس کی حمد و ثنا اور دعا کی خاطر سورتِ فاتحہ پڑھنا جائز ہے، اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اور کسی کام کے ابتدا اور اختتام پر اس کا پڑھنا اعمالِ حسنہ میں سے ہے؛ کیونکہ جس جیز میں فاتحہ ہوتی ہے اس میں فتح و نصرت ہوتی ہے۔ اور یہ سورت ام القران اور السبع المثاني والقران العظيم بھی ہے جسے حضور نبی اکرم ﷺ کو عطا کیا گیا ہے۔
کھیل کے میدان وغیرہ میں اس کے تلاوت کا انکار کرنے والا اگر اس کی مشروعت میں بحث کر رہا ہے تو یہ مشروعیت ثابت ہے اور اگر کوئی عوامی پروگرامز میں دینی شعائر کو روکنے اور تہذیبی نظام کو اللہ تعالی کے دین سے دور کرنے کا سبب بن رہا ہے تو یہ ایک ایسا امر ہے جس کی اس کے بہت سے شیاطین اور ملحدین اسلاف نے ناکام کوششیں کیں۔ یہاں تک کہ ان کے بڑے مفکرین کو یہ اقرار کرنا پڑا کہ دین کو نظامِ حیات میں داخل کرنا اگر کوئی عالمی حقیقت نہیں تو یہ ایک ایسی سماجی ضرورت ضرور ہے جس کا تقاضا انسانی زندگی کا استحکام کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے سچ فرمایا :
'' (یہ لوگ) چاہتے ہیں کہ بجھا دیں اللہ تعالی کے نور کو اپنی پھونکوں سے اور انکار فرماتا ہے اللہ تعالی مگر یہ کہ کمال تک پہنچا دے اپنے نور کو اگرچہ ناپسند کریں اس کو کافر '' ( )

والله سبحانه وتعالى أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas