حکیم نام رکھنے کا حکم

Egypt's Dar Al-Ifta

حکیم نام رکھنے کا حکم

Question

کیا کسی کیلئے اللہ تعالی کے اسمائِ حسنیٰ میں سے کوئی نام رکھنا جائز ہے؟ کیونکہ میں اپنے بیٹے کا نام اللہ تعالی کے خوبصورت ناموں میں سے رکھنا چاہتا ہوں، اور وہ نام "حکیم" ہے۔ کیا ایسا کرنا شرعًا جائز ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ شریعتِ مطہرہ نے بہترین نام رکھنے کی ترغیب دلائی ہے؛ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تمہیں قیامت کے دن تمہارے ناموں اور تمہارے آبائ کے ناموں سے بلایا جائے گا، پس اپنے نام اچھے رکھا کرو''۔ روایتِ امام ابو داود۔

بنیادی اصول یہ ہے کہ لوگوں اور چیزوں کا کوئی بھی نام رکھنا جائز ہے سوائے اس کے جس کےمتعلق ممانعت آئی ہو۔

علماء نے ذکر کیا ہے کہ اللہ کے اسمائِ حسنی میں سے کچھ اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہیں۔ جیسے: اللہ، رحمٰن، خالق اور متکبر، یہ نام اللہ تعالی کے سوا کسی اور کے لیے رکھنا جائز نہیں۔

اور کچھ اسمائِ حسنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص نہیں ہیں۔ جیسے: رحیم، بصیر، عدل، حکیم اور عزیز۔

ان ناموں کا استعمال جائز ہے، خواہ کسی شخص کیلئے ہو، مسجد کیلئے ہو، مکان کیلئے ہو یا ایسی کسی بھی چیز کیلئے جس میں اس نامِ مبارک کی تعظیم ہو رہی ہو اور اس کی اہانت نہ ہوتی ہو۔

علامہ رملی رحمہ اللہ اپنی کتاب " حاشيۃ على أسنى المطالب في شرح روض المطالب " (4/244، ایڈیشن دار الکتاب الاسلامی) میں کہتے ہیں: مصنف کے قول '' أما الذي يطلق على الله وعلى غيره إلخ '' سے یہ مستفاد ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے ناموں کو استعمال کرنا جائز ہے جو اس کے ساتھ خاص نہیں ہیں لیکن جو اس کے ساتھ خاص ہیں ان ناموں پر کسی کا نام رکھنا حرام ہے، یہی بات امام نووی رحمہ اللہ نے"شرح مسلم" میں بیان کی ہے۔

ایسی شرعی نصوص موجود ہیں جو یہ بیان کرتی ہیں کہ جو نام اللہ تعالی کیلئے خاص نہیں ہیں ان کا لوگوں اور چیزوں کیلئے استعمال کرنا جائز ہے۔ انہی میں سے ایک نام "حکیم" بھی ہے، پس یہ اللہ تعالی کے اسمائِ حسنی میں سے ایک اسم ہے؛ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ یعنی: ''اللہ نے اور فرشتوں نے اور علم والوں نے گواہی دی کہ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہی انصاف کا حاکم ہے، اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں زبردست حکمت والا ہے''[آل عمران: 18]۔

تاہم یہ اسم پاک غیرِ ذات باری کیلئے بھی استعمال ہوا ہے؛ پس حدیث مبارکہ میں جلیل القدر صحابی حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا ہے، انہوں نے بیان کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم سے سوال کیا تو آپ ﷺ نے مجھے عطا فرمایا، میں نے پھر سوال کیا آپ ﷺ نے مجھے پھر عطا فرمایا میں نے پھر سوال کیا آپ ﷺ نے پھر مجھے عطا کیا اور پھر آپ ﷺ نے فرمایا: "اے حکیم، یہ مال خوشنما اور دل کو بھانے والا ہے، جو شخص شخاوتِ نفس کے ساتھ اسے حاصل کرتا ہے، اُسے اس میں برکت ملتی ہے۔ جو شخص اسے اپنی حرصِ نفس کے ساتھ حاصل کرتا ہے، اُسے اس میں برکت نہیں ملتی، بلکہ وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی کھانا کھاتا ہو مگر اُس کا پیٹ بھرا نہ بھرتا ہو، اُوپر والا ہاتھ ٔ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے''۔ حضرت حکیم کہتے ہیں کہ میں عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے آپ ﷺ کے بعد دنیا سے جاتے دم تک میں کسی سے کچھ نہیں لوں گا، پس سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں کچھ دینے کیلئے بلایا، انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے انہیں عطا کرنے کیلئے بلایا، انہوں آپﷺ سے بھی کچھ لینے سے انکار کر دیا تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے مسلمانوں کی جماعت! میں حکیم کے معاملے پر تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں اس مالِ فیئ سے ان کا حق انہیں دے رہا ہوں لیکن وہ لینے سے انکار کر رہے ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کے بعد حضرت حکیم نے مرتے دم تک کسی سے کوئی چیز نہیں لی۔ رویتِ امام بخاری رحمہ اللہ۔

اس حدیث مبارکہ میں وجہِ دلالت یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس صحابی کو ''یاحکیم'' کہہ کر بلایا کرتے تھے، اگر ذاتِ باری کے ساتھ غیر مختص ناموں کا استعمال ممنوع ہوتا تو آپ ﷺ انہیں اپنا نام تبدیل کرنے کا حکم فرماتے جیسے آپ ﷺ نے ایسے کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو یہ حکم فرمایا تھا جن کے ناموں میں صفاتِ باری تعالی کے ساتھ تشابہ یا اشترک کا گمان پیدا ہوتا تھا؛ حضرت ہانی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ اپنی قوم کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ان کی قوم والے انہیں ابو الحکم کی کنیت سے بلاتے تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصبہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالی ہی حَکم ہے اور ہر حُکم اسی کی طرف لوٹا ہے تمہیں ابو الحکم کی کنیت سے کیوں پکارا جاتا ہے؟ انہوں نے عرض کی: جب میری قوم میں کسی چیز پر اختلاف ہو جائے تو میرے پاس آتے ہیں اور میں ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں تو دونوں فریق راضی ہو جاتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا:یہ تو بہت اچھا کام ہے، تیرے بچے کتنے ہیں؟ انہوں نے عرض کی: شریح، مسلم اور عبد اللہ، آپ ﷺ نے فرمایا ان میں سے بڑا کون ہے عرض کی شریح، آپ ﷺ نے فرمایا: پس آپ ابو شریح ہو''۔ روایتِ امام ابو داود۔

اس بنائ پر واقعہ سوال کے جواب میں ہم کہیں گے کہ ایسے ناموں میں سے کوئی نام رکھنا جن کا اطلاق اللہ تعالی  پر بھی ہوتا ہے اس ذات کے علاوہ مخلوق پر بھی ہوتا ہے جیسے حکیم یا اس جیسے اور  نام ہیں ان کا رکھنا شرعًا جائز ہے اور یہی حکم شرعی نصوص میں بیان کیا گیا ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas