عمرہ کی نیت کیے بغیر میقات سے تجاوز...

Egypt's Dar Al-Ifta

عمرہ کی نیت کیے بغیر میقات سے تجاوز کرنے کا حکم

Question

 میں سعودیہ کے کسی شہر میں رہتا ہوں اور کسی حکومتی کام کی غرض سے جدہ جانے کا ارادہ کیا ہے اور اسی دن میں نے واپس بھی آنا ہے، اگر کام مکمل ہونے کے بعد میرے پاس وقت ہو تو کیا میں عمرہ کر سکتا ہوں، اور کیا میں جدہ ہی سے احرام باندھ سکتا ہوں؟

Answer

 الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد! آپ کیلئے ایسا کرنا شرعا جائز ہے اور آپ پر دم بھی واجب نہیں ہوگا، آپ کا احرام اسی شہر کے میقات سے ہوگا جہاں سے آپ نے عمرہ کی نیت کی ہے اور اس نیت میں کسی قسم کا کوئی تردد یا کوئی ایسی شرط نہ ہو جس پاۓ جانے کا آپ کو یقین نہ ہو۔
امام ابنِ حجر ہیتمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: '' المجموع کی آخری دو عبارتوں سے جو ماخوذ ہوتا ہے جہاں پہلی عبارت میں آپ رحمہ اللہ نے مکی شخص کے بارے میں فرمایا ہے، وہ یہ کہ جب تک اس نے عمرے کا پختہ ارادہ نہیں کیا تب تک اس پر احرام لازم نہیں ہوگا اگرچہ اسے پتا ہو کہ غالبا وہ حج کرے گا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکی کا حکم یہ ہے کہ اگر اس نے میقات کے پاس سے زمانۂ حال میں یا مستقبل میں نسک (حج یا عمرے) کا قصد کر لیا ہے تو میقات سے ہی اس پر اس نسک کا احرام لازم ہوجاۓ گا، اگر احرام نہیں باندھا تو گناہگار ہوگا اور اس پر دم لازم آۓ گا؛ کیونکہ احرام شرط ہے، اور اگر وہ میقات کے پاس ہے اور اس کا ارادہ اپنے وطن آنے کا ہے یا اس کے علاوہ کسی اور ارادے سے مکہ آ رہا ہے، اور اس کا مکہ آنے کا مقصد نسک نہ ہو تو اس پر میقات سے احرام باندھنا لازم نہیں ہو گا، اگرچہ اسے معلوم ہو کہ اگر اس کے ادھر ہوتے ہوتے حج آ گیا تو حج کرۓ گا یا اگر اس کا عمرہ کرنے کو دل چاہا تو عمرہ کرۓ گا؛ کیونکہ اس وقت اس کا حرم میں آنے کا ارداہ نسک ادا کرنے کا نہیں ہے، بلکہ اس نے کسی اور کام کا ارادہ کیا ہے، نسک کے ادا کرنے کے احتمال کی طرف نہیں دیکھا جائے گا، مگر جب میقات کے پاس سے گزرتے وقت اس نے حال ہی میں یا مستقبل میں نسک ادا کرنے کا قصد کر لیا تو اب وہ نسک کے قصد سے ہی آرہا ہے؛ جس مقصد کی خاطر حرم کو بنایا گیا ہے، یہیں سے احرام کے ساتھ اس کی تعظیم لازم ہوجائیگی؛ کیونکہ اب وہ مقصد پایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے میقات سے احرام واجب کیا گیا ہے۔
اس مسئلہ میں نے جو کچھ بیان اس میں غور وفکر کرو کیونکہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے، جو '' المجموع '' کی اس عبارت نہیں سمجھ سکا اس نے خطا کھائی ہے اور بغیر غور وفکر کے جو اس کی سمجھ میں آیا اس فتوی دے دیا۔( )

والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas