اسقاط حمل اور زنا کا اعتراف۔

Egypt's Dar Al-Ifta

اسقاط حمل اور زنا کا اعتراف۔

Question

اسقاط حمل کو جائز قرار دینے کی درخواست کرنے اور زنا سے پیدا ہونے والے بچوں کا اعتراف کرنے کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔شرعا یہ بات مسلم ہے کہ زنا حرام ہے اور کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے، اور یہ کہ لواطت اور ہم جنس پرستی حرام ہے اور بڑے گناہوں میں سے ہیں ، اور یہ کہ شادی کے مشروع کرنے میں شریعت مطہرہ کی حکمتوں میں ایک حکمت بچوں کے حقوق کی حفاطت کرنا ہے؛ اسی وجہ سے اسلام نے ہر اس چیز کا حکم دیا ہے جو ان کے حقوق کی حفاظت کا سبب بنتی ہے، لہذا اسلام نے پاکدامنی اور مکارم اخلاق کا حکم دیا ہے، اور بے حیائی ، برائی اور زنا سے منع کیا ہے ، اور مردوں کو عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے ، اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا ہے ۔ اور ان دونوں کو ان خصوصیات اور افعال پر قائم رہنے کا حکم دیا ہے جو ان کی تخلیق کے مطابق ہیں۔ اور پھر اس سارے معاملے کو یومِ آخرت میں حساب وکتاب کے ساتھ ، تعمیر ارض کے ساتھ اور تزکیہ نفس کے ساتھ جوڑ دیا ہے اسلئےمسلمانوں کا پختہ یقین ہے کہ ان احکامات کی خلاف ورزی کرنے اور ان ممنوع چیزوں میں پڑنے سے انسانی معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے اور دنیا اور آخرت میں برے نتائج مرتب ہوتے ہیں، اور یہ زمین پر بہت بڑے فساد کا سبب بنتا ہے جس کا مقابلہ کرنا اور ایسا کرنے والوں کو نصیحت کرنا اور اس کے منفی اثرات کو نمایاں طور پر بیان کرنا واجب ہے.
جب یہ بات مسلم ہے تو پتا چلا کہ اسلام ہم جنس پرستی کو جائز قرار نہیں دیتا ، اور جنسی طور پر فعال نوجوانوں اور بڑوں کے درمیان زنا سے بھی روکتا ہے، ساتھ ہی اور ہر اس جان پر ظلم کرنے سے بھی منع کرتا ہے جسے خدا تعالی نے پیدا کیا ہے۔ اسی وجہ سے اسقاط حمل حرام قرار دیتاہے، سوائے ایک طبی ضرورت کے جس میں عورت کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوے جائز قرار دیا ہے، اور اسلام نسل کے تحفظ کو اپنی شریعت کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اہم مقصد قرار دیتا ہے۔
جس طرح اسلام نے عقد نکاح کے بغیر مرد اور عورت کے مابین جنسی تعلقات کو جائز نہیں کیا ، اسی طرح اس نے ایک والد اور اس کے بچوں کے درمیان رشتے کو فطری نہیں بلکہ شرعی رشتہ قرار دیاہے ۔ شریعت مطہرہ نے یہ قرار دیا ہے کہ زنا کا پانی رائیگاں ہے ، اور زنا سے کسی باپ ہونا یا بیٹا ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: : «الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ» "بچہ صاحبِ فراش کے لیے ہے ، اور بد کار کیلئے محرومی ہے۔" یہ الفاظ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کی متفق علیہ حدیث میں سے ہیں۔ یعنی زانی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ ولدِ زنا کے بارے میں اپنا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرے یا اسے اپنی طرف منسوب کرے ، بلکہ زنا کے بچے کو اپنی ماں سے منسوب کیا جاے گا۔ کیونکہ ماں کا رشتہ ایک فطری نامیاتی رشتہ ہے ، بر خلاف ابوت کے رشتہ کے ، جو صرف ایک شرعی نکاح سے قائم ہو سکتا ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas