خاندانی منصوبہ بندی کے لیے اسقاط حم...

Egypt's Dar Al-Ifta

خاندانی منصوبہ بندی کے لیے اسقاط حمل

Question

کیا خاندانی منصوبہ بندی کے لیے اسقاط حمل کرنا جائز ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ حنفی فقہاء کرام رحمھم اللہ نے اسقاط حمل کو اس وقت تک جائز قرار دیا ہے جب تک کہ اس سے کوئی چیز تخلیق نہ ہوئی ہو ، اور تخلیق ایک سو بیس دن سے پہلے نہیں ہوتی ، اور کسی عذر کے بغیر اسقاطِ حمل اس وقت بھی مکروہ ہے۔ اور انہوں اس بات کو بھی عذر کہا ہے کہ اگر حمل جاری رہا تو دودھ سوکھ جاےٴ گا اور بچے کا باپ اجرت پر دودھ پلوانے سے قاصر ہو۔ کچھ شافعی فقہاء کرام رحمھم اللہ کا بھی یہی خیال ، اور مالکی فقہاءِ کرام رحمھم اللہ کے ایک گروہ اور ظاہری فقہاءِ کرام رحمھم اللہ کے مذہب کے مطابق اس وقت اسقاطِ حمل حرام ہے ، اور مالکیوں میں سے کچھ فقہاء کرام رحمھم اللہ اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔ زیدیہ رحمھم اللہ روح پھونکے جانے سے پہلے اسقاط حمل کو مطلقا جائز سمجھتے ہیں، یعنی اسقاط حمل چاہے کسی عذر کی وجہ سے کیا جاےٴ یا بغیر کسی عذر کے۔ تمام فقہاء کا اس کے بارے میں اتفاق ہے کہ بغیر ضرورتِ شرعی کے چار ماہ کے بعد اسقاط حمل کرنا حرام ہے۔ اسی طرح ، اگر ڈیلیوری مشکل ہو اور ماہر ڈاکٹر کا خیال ہو کہ حمل جاری رکھنا ماں کے لیے نقصان دہ ہے ، تو اس صورت میں زیادہ نقصان سے بچنے کے لئے کم نقصان اختیار کرنے کے اصول پر عمل کرتے ہوےٴ اسقاط حمل جائز ہے ، اور اس میں بھی کوئی نزاع نہیں ہے کہ اگر معاملہ ایسا ہو کہ بچے اور ماں دونوں میں سے ایک بچ سکتا ہو تو ماں کو محفوظ رکھا جاےٴ گا۔ کیونکہ ماں اصل ہیں۔
اس بنا پر: اسقاطِ حمل اس معنی کے ساتھ کہ رحم میں اس کی عمر چار ماہ تک پہنچنے کے بعد اسے ضائع کیا جاےٴ تو ایسا کرنا شرعا حرام ہے اور سواےٴ ضرورت کے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ مثالِ مذکور میں ہے ، اور اسی طرح جب بچے کی پیدائش مشکل ہو ، اور ماں کی زندگی کو بچانا بچے کو باہر نکالنے سے پہلے اسے کاٹنے کا تقاضا کرتا ہو ، تو یہ جائز ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas