دل کے والو کیلیے خنزیر کے ٹشو درآمد...

Egypt's Dar Al-Ifta

دل کے والو کیلیے خنزیر کے ٹشو درآمد کرنا اور استعمال کرنا

Question

ہماری کمپنی اوپن ہارٹ مریضوں کے علاج کے لیے کچھ اشیاء درآمد کرتی ہے، اور ہم جو آئٹمز درآمد کرتے ہیں ان میں سے ایک قدرتی ٹشو والو بھی ہے جو خنزیر سے لیا جاتا ہے، یاد رہے کہ اس پر مڈیکل طریقے سے کام کیا جاتا ہے، اسے جراثیم سے پاک کیا جاتا ہے، اور ایک خاص درجہ حرارت پر محفوظ کیا جاتا ہے اور پھر اسے مریض کے جسم میں لگا دیا جاتا ہے۔ ایسے والو کے درآمد کرنے اور استعمال کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اگر خنزیر سے نکالے گئے اس مادے کی طبیعت اوراجزاءِ ترکیبی کسی دورسرے مادے میں تبدیل ہو جائیں جو والو کی تیاری کے دوران بن گیا ہو اور یہ بالکل نیا مادہ بن گیا اپنی ہیئت اور اجزاء کے لحاظ سے ایسی شکل اختیار کر گیا ہو کہ اسے خنزیر کا مادہ کہنا درست نہ ہو تو اس کو درآمد کرنے اور مذکورہ والوز میں استعمال کرنے اور ان کے ساتھ علاج معالجہ کرنے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے۔
لیکن اگر اس کی طبیعت کے لحاظ سے اس پر خنزیر کے اجزاء کا اطلاق ہو رہا ہو تو اسے درآمد کرنا یا استعمال کرنا جائز نہیں، سوائے ضرورت کے، کہ کوئی پاک چیز اس کے قائم مقام نہ ہو اور مریض کے لیے ایسا والو اگر نہ لگایا جائے تو اس کی جان یا صحت کو خطرہ ہو، تو اس صورت میں یہ حلال ہو گا۔
شرعا یہ بات مسلم ہے کہ خنزیر کا گوشت کھانا، اس کی تجارت کرنا حرام ہے؛ کیونکہ اللہ تعالى کا ارشادِ گرامی ہے :﴿إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ (البقرة: 173) ترجمہ: بیشک اس نے حرام کر دیا ہے تم پر مردار اور خون اور سور کا گوشت اور جس پر اللہ کے علاوہ کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ پس جو مجبور ہو اور سرکشی کرنے والا نہ ہو اور نہ ہی حد سے تجاوز کرنے والا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، بیشک اللہ تعالی بہت بخشنے والا، نہایت رحم فرمانے والا ہے۔
جمہور فقہاءِ اسلام کے مذہب کے مطابق خنزیر مردہ ہو یا زندہ ہو نجسِ عین ہے، لیکن مالکی فقہاءِ کرام کا مذہب یہ ہے کہ جب تک یہ زندہ ہے تو پاک ہے اگر مر جاےٴ تو نجس ہو جاتا ہے۔
زیرِ بحث مسئلہ میں حکم شرعی اس راےٴ پر مبنی ہو گا کہ اشیاء کے بدل جانے سے اور ان کے حقائق کے الٹ پلٹ ہو جانے سے ان کے شرعی حکم کے باقی رہنے یا باقی نہ رہنے پر کوئی اثر پڑتا ہے یا کہ نہیں، اس تغیر اور تبدیلی کو اصطلاحِ فقہ میں "الاستحالة" کہا جاتا ہے، یعنی: کسی چیز کا اپنی طعیعت اور وصف سے ہٹ جانا۔ کیا یہ تبدیلی نجس چیزوں سے ان کی نجاست کا حکم زائل کرنے میں مؤثر ہے؟
شراب جب خود بخود سرکے میں تبدیل ہو جاےٴ تو اس کے پاک ہونے پر علماءِ کرام کا اجماع ہے؛ لیکن شراب کے علاوہ کوئی چیز تبدیل ہو جاےٴ تو اس کے پاک ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں علماءِ کرام کی دو آراء ہیں:
حنفی اور مالکی مذہب اور امام احمد رحمھم سے مروی ایک قول کے مطابق "الاستحالة" سے نجس چیز پاک ہو جاتی ہے؛ کیونکہ اس کی ذات بدل گئی ہے اور اس کی حقیقت متغیر چکی ہے؛ کیونکہ شریعتِ مطہرہ نے نجاست کا وصف اس کی عینِ حقیقت پر مرتب کیا ہے؛ اس لیے شراب کے سرکہ بن جانے کے مسئلے پر قیاس کرتے ہوےٴ کسی بھی چیز کی حقیقت کے زائل ہو جانے سے یہ وصفِ نجاست بھی زائل ہو جاےٴ گا۔ اور اس کی مثل اور بھی مسائل ہیں جیسے:
جیسے ہرن کا خون جب کستوری میں بدل جاےٴ تو پاک ہو جاتا ہے اور "علقة" جب "مضغة" میں بدل جاےٴ تو وہ بھی پاک ہوجاتا ہے۔
شافعی فقہاءِ کرام کے مطابق اورحنابلہ فقہاءِ کرام کے ظاہر مذہب کے مطابق سرکہ میں بدلی ہوئی شراب کے علاوہ کوئی اور چیز "الاستحالة" کی وجہ سے پاک نہیں ہوتی؛ کیونکہ نصِ شریعت صرف شراب کے بارے میں وارد ہوئی ہے۔
لیکن ہمارا میلان حقائق کے اس تغیر کو مدِ نظر ہوےٴ پہلی راےٴ کی طرف ہے جس کے مطابق نجس چیز میں تغیر واقع ہو جانے کی وجہ سے اس کی نجاست زائل ہو جاتی ہے؛ اور اس کی تصدیق لیبارٹری رپوٹس بھی کرتی ہیں جو جزئیات کے درمیان نئے روابط کو ثابت کرتی ہے جس سے چیزوں کی ہیئت اور ان کے حقائق کے بدلنے کا اشارہ ملتا ہے۔
اس بنا پر زیرِ نظر سوال کی صورت میں ہم کہیں گے: اگر یہ مادہ خنزیر کی طبیعت اور اس کے اجزاء سے کسی دوسرے مادے میں تبدیل ہو جاےٴ اور یہ ایک نیا جلیٹن یا سپنج والا ایسا مادہ بن جائے جسے خنزیر کہنا صحیح نہ ہو، اور یہ ہی اس نئی شکل اور اجزاء کو یہ کہا جا سکے کہ یہ خنزیر کا جزو ہے، تو اسے درآمد کرنے میں، استعمال کرنے میں، معاملات کرنے میں اور اس کے ساتھ علاج کرنے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔
لیکن اگر اس کی طبیعت کے لحاظ سے اس پر خنزیر کے اجزاء کا اطلاق ہو رہا ہو تو اسے درآمد کرنا یا استعمال کرنا جائز نہیں ہو گا مگر یہ کہ ضرورت کے وقت جائز ہو گا، کہ جب کوئی پاک چیز اس کے قائم نہ ہو اور اگر مریض کے لیے ایسا والو نہ لگایا جائے تو اس کی جان خطرہ ہو، اس کے کسی عضو کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو، یا مرض کے بڑھنے یا قائم رہنے کا خطرہ ہو، یا اس کے جسم میں کسی بڑے عیب کے واقع ہونے کا خطرہ ہو تو اگر اس کی جگہ اس وصف کا کوئی اور والو نہ رکھا جا سکے تو اس وقت یہ حلال ہو گا۔
والله سبحانه وتعالى.
 

Share this:

Related Fatwas