ستائیس رجب کو اسراء اور معراج کا جشن منانا
Question
ستائیس رجب کو شب الاسراء اور معراج کا جشن منانے کا کیا حکم ہے؟ کیونکہ کچھ لوگ گمان کرتے ہیں کہ اسراء اس وقت یعنی رجب میں نہیں ہوا تھا اور یہ جشن منانا بدعت ہے، تو ہماری رانمائی فرمائین، اللہ تعالی آپ کا حامی وناصر ہو۔
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اسراء اور معراج کو مختلف قسم کی عباتوں کی صورت میں منانا شرعا مرغوب عمل عمل ہے؛ کیونکہ اس میں نبی رحمت، غوثِ امت ہمارے آقا سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وازواجہ وسلم کی تعظیم اور تکریم کا پہلو ہے۔
اہل علم کے اقوال میں سے مشہور اور معتمد علیہ قول یہ ہے کہ اسراء اور معراج ماہ کا واقعہ رجب میں پیش آیا تھا۔ اس بارے میں امام سیوطی رحمہ اللہ نے پندرہ سے زیادہ اقوال نقل کیے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور یہ یہ ہے کہ اسراء اور معراج ماہ کا واقعہ رجب کے مہینے میں پیش آیا تھا ۔ اس لئے کہ آپ اپنی کتاب "الآية الكبرى في شرح قصة الإسرا" (صفحہ 52-53، ط. دار الحدیث) میں فرمایا ہے: [جہاں تک اس مہینے کا تعلق ہے جس میں اسراء اور معراج کا واقعہ پیش آیا: تو امام ابن المنیر نے نے "السنۃ" میں ربیع الاخر والے قول کو ترجیح دی ہے اور امام نووی رحمہ اللہ نے "شرح مسلم" میں اسی بات پر زور دیا ہے۔ اور پہلے قول کے مطابق یہ الربیع الاول کا مہینہ تھا؛ امام نووی رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی میں یہ قول اختیار کیا ہے۔
اور ایک قول یہ ہے کہ رجب میں یہ واقعہ پیش آیا اور "الروضہ" میں اسی قول کی تاکید کی گئی ہے۔
امام واقدی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔
امام ماوردی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ شوال کا مہینہ تھا، لیکن مشہور یہی ہے کہ یہ رجب کا مہینہ تھا۔
اور امام ابو حیان نے اپنی تفسیر "البحر المحیط" (7/9، ط. دار الفکر) میں اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا۔ ’’یہ واقعہ ہجرت سے ڈیڑھ سال پہلے رجب میں پیش آیا تھا۔‘‘
امام ابن عطیہ الاندلسی رحمہ نے "المحرر الوجیز" (3/435-436، ط. دار الکتب العلمیہ) میں اس قول کی تصدیق کرتے ہوےٴ فرمایا: [اور یہ واقعہ رجب میں پیش آیا تھا] ھ۔
امام ابن قتیبہ اور امام ابن عبد البر المالکی رحمھما اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ جیسا کہ امام قسطلانی نے المواہب الندنیۃ (2/70،ط، دار الکتب العلمیہ) میں ذکر کیا ہے اور العلامة الدیاربکری نے تاریخ الخمیس (1/307، ط. دار صادر) میں ذکر کیا ہے۔
رجب کے مہینے کی ستائیسویں تاریخ کو اسراء اور معراج کا مقرر ہونا: اسے بہت سے آئمہ نے روایت کیا ہے، اور یہی قول محققین کی جماعت نے اختیار کیا ہے، اسی قول پر اور قدیم اور جدید زمانے میں مسلمانوں کا عمل بھی ہے۔
حافظ ابن جوزی نے بھی "المنتظم في تاريخ الملوك والأمم" (3/ 26، ط. دار الكتب العلمية) میں روایت کرتے ہوےٴ فرمایا: [کہا جاتا ہے کہ یہ رجب کی ستائیسویں رات تھی]۔
جن لوگوں نے اس قول کو اختیار کیا ہے اور اس پر زور دیا ان میں سے: حجۃ الاسلام امام ابو حامد الغزالی الشافعی رحمہ اللہ - ہیں۔ جنہوں نے اپنی عظیم کتاب "إحياء علوم الدين" (1/ 367، ط. دار الشعب) میں فرمایا: [اور اس کی ستائیسویں رات - یعنی: رجب کے مہینے کی - اور یہی معراج کی رات ہے] ھ۔
اوران میں سے امام حافظ ابو الفراج ابن جوزی حنبلی رحمہ اللہ بھی ہیں آپ نے اپنی کتاب "الوفا بتعريف فضائل المصطفى" (1/ 162)؛ میں معراج کے وقت میں علماء کا اختلاف بیان کیا اور پھر اس کے بعد فرمایا: [میں کہتا ہوں: اور یہ رجب کی ستائیسویں رات تھی]۔
اسے امام عینی رحمہ اللہ نے "عمدۃ القاری" (4/ 39، ط. دار إحياء التراث العربي) میں اور امام قسطلانی نے "المواہب اللدنیہ" (2/71), ط. دار الکتب العلمیہ) میں اور ان کے علاوہ دیگر آئمہ رحمھم اللہ نے بھی نقل کیا ہے۔
حافظ سراج الدین بلقینی رحمہ اللہ نے "محاسن الاصطلاح" (ص: 718، ط. دار المعارف) میں اسی قول کی تصدیق کی ہے۔ آپ نے فرمایا: [اسراء کی رات مکہ میں تھی اور یہ بعثت سے دس سال اور تین ماہ بعد، رجب کے مہینے کی ستائیسویں رات تھی]۔
اسی قول کی تصدیق دو شافعی محققین امام رفاعی اور امام نووی رحمھما اللہ نے "روضة الطالبين وعمدة المفتين" (10/ 206، ط. المكتب الإسلامي) میں کی ہے انہوں نے فرمایا ليلة الاسراء کا زمانہ : [نبوت کے دس سال اور تین ماہ بعد رجب کی ستائیسویں رات ہے]
علماء نے اس قول کو نقل کیا اور یبیان کیا ہے کہ تمام زمان ومکان کے لوگوں کا اسی قول پر عمل رہا ہے۔ علّامہ سفاريني حنبلی "لوامع الأنوار البهية" (2/ 280، ط. مؤسسة الخافقين): میں کہا ہے: [ابن جوزی نے کہا: کہا گیا ہے کہ یہ رات رجب کے مہینے کی ستائیسویں رات تھی۔ میں کہتا ہوں: اسی قول کو حافظ عبدالغنی المقدسی الحنبلی رحمہ اللہ نے منتخب کیا ہے اور اسی پر لوگوں کا عمل ہے۔] ھ۔
اور علامة إسماعيل حِقِّي البروسوي نے "روح البيان" (5/ 103، ط. دار الفكر) میں کہتا ہوں: [یہ رجب کی ستائیسویں رات، پیر کی رات تھی، اور اسی پر لوگوں کا عمل ہے]۔
علامة إسماعيل النابلسي نے "الإحكام شرح درر الحكام" میں کہا ہے - جیسا کہ علامہ ابن عابدین - رحمھا اللہ - نے اپنے حاشیہ"رد المحتار على الدر المختار" (1/ 352، ط. دار الفكر) میں نقل کیا ہے: [اور تمام ملکوں اسی قول پر لوگوں کا عمل ہے]۔
امام سیوطی نے "الآية الكبرى في شرح قصة الإسرا" (ص: 36، ط. دار الحديث): [مشہوط یہ ہے کہ یہ رجب کا مہینہ تھا]۔
باوجود اس کے کہ اسراء کے تعینِ وقت میں علماء کا اختلاف ہے انہوں نے ستائیسویں رجب میں امت اسلامیہ کے ہمیشہ معراج کی یاد منانے کو اس قول کی ترجیح اور اس کے صحیح ہونے اور ظنِ غالب ہونے پر شاہد بنایا ہے۔
علامہ زرقاني رحمہ اللہ نے "شرح المواهب اللدنية" (2/ 71، ط. دار الكتب العلمية) میں "المواہب" کے مصنف کے قول (اور کہا گیا ہے: یہ ستائیسویں رجب کی رات تھی): پر کہا [اور اسی پر لوگوں کا عمل ہے]۔
ان میں سے بعض نے کہا اور یہی سب سے قوی قول ہے۔ پس اگر کسی مسئلہ میں سلفِ صالحین کا اختلاف ہو، اور ترجیح کے لیے کوئی دلیل نہ ہو، اور ان اقوال میں سے کسی ایک کے ساتھ لوگوں کا عمل منسلک ہو، اور اسے قبولیت بھی حاصل ہو: تو ظنِ غالب کی وجہ سے یہی قول راجح ہو گا؛ اسی وجہ سے حافظ عبد الغني بن عبد الواحد بن علي بن سرور مقدسی حنبلی رحمہ اللہ نے اس قول کو اختیار کیا ہے آپ عابد، زاہد "العمدہ" اور "الکمال" وغیرہ کے مصنف اور اپنے زمانے میں حدیث اور حفظ میں عدیم المثال امام تھے]۔
امام محمد أبو زهرہ نے اپنی کتاب "خاتم النبيين" (ص: 562، ط. المؤتمر العالمي للسيرة بالدوحة) میں کہا ہے: [ہم نے لوگوں کو اس تاریخ کو قبول کرتے ہوئے پایا ہے اور اسی قول تلقی بالقبول حاصل ہے، اور لوگ جس عمل کو قبول کر لیں ہم اسے رد نہیں کر سکتے، بلکہ ہم اسے قبول کرتے ہیں، لیکن قطعیت اور یقین کے بغیر۔] آہ۔
اس کے راجح ہونے کا سب سے قوی ثبوت یہ ہے کہ سلفِ صالحین نے مختلف عبادات کر کے اس بابرکت رات کو منایا ہے۔
جیسا کہ علامہ ابن الحاج المالكي رحمہ اللہ نے "المدخل" (1/ 294، ط. دار التراث) میں نقل کیا ہے: [رجب کی ستائیسویں کی رات معراج کی رات ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اپنے فضل و کرم اور احسان عظیم سے اس چیز کے ساتھ شرف بخشا ہے جو اس نے ان کیلئے مشروع کی ہے۔
اور سلفِ صالحین اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی خاطر اس رات کی تعظیم کرتے تھے، وہ اس رات میں عبادت کو بڑھانے اور نماز میں قیام کو طول دینے ، دعا، گریہ و زاری اور ان کے علاوہ ان دیگر عبادتیں کر کے اس کی تعظیم کرتے تھے جن کا پتا ان کی نیک عادات سے ملتا ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو معظم بنایا ہے وہ بھی اس کی تعظیم کریں تاکہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی سنت کی تعمیل کر سکیں۔ اس لئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالى کے عطیات کے درپے رہو" اور یہ رات اللہ تعالی عطیات میں سے ایک عطیہ ہے، کیوں نہ ہو، حالانکہ پنجگانہ نمازوں کا مرتبہ اسی رات میں پچاس سے سات سو تک کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے، اور یہ مالکِ کائنات، غنی اور کریم رب کا فضلِ عظیم ہے؛ اس لیے جب یہ رات آتی تو وہ لوگ اس عطا پر اپنے رب کریم کا شکر ادا کرتے کرنے کیلئے مذکورہ عبادتوں کے ساتھ اس کا استقبال کیا کرتے تھے۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ اس نے جو انہیں عطا فرمایا تھا ہمیں بھی اس سے محروم نہ کرے، وہی ایسا کرنے پر قادر اور اس کا مالک ہے۔ آمین۔ بتصرفِ قلیل۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اس رات لوگوں کی طرف سے ہونے والے افعال میں سے کچھ کا انکار کیا ہے جو محلِ اختلاف ہیں، اور ان میں سے چند ایک ایسی باتوں کا بھی جن کو آپ کے علاوہ کچھ علماء مستحسن سمجھتے ہیں۔
علامہ محدث ابو الحسنات الکھنوی نے اپنی کتاب "الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة" (ص: 77، ط. مكتبة الشرق الجديد) میں فرمایا ہے: عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ رجب کی ستائیسویں شب معراج کی رات ہے۔
رجب کا موسم حرمین شریفین میں متعارف ہے؛ رجب میں دور دراز سے لوگ مدینہ منورہ میں قبرِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور اس رات کو جمع ہوتے ہیں۔ اسی مناسبت سے ستائیسویں رجب کی رات کو عبادت کرنا مستحب ہے، کثرت عبادت کا یہی حکم ان بقیہ راتوں میں بھی ہے جن کے بارے میں رات کی معراج کی کہا جاتا ہے؛ اس بات کا شکر ادا کیلیے کہ اللہ نے ہمیں اس رات پنجگانہ نمازوں کی فرضیت سے نوازا اور ان کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر کر دیا؛ تاکہ ہم اللہ تعالی کی اس نعمت اور احسانِ عظیم کا شکر ادا کر سکیں کہ اس نے اس رات پنجگانہ نمازوں کی فرضیت سے نوازا اور ان کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر کر دیا اور اس نعمت کا بھی سکر ادا کریں کہ اللہ تعالی نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کو ہر قسم کی فضیلت اور رحمت سے نوازا ہے اور اپنی ملاقات، کلام اور دیدار کا شرف بخشا ہے۔
اس بنا پر: مسلمانوں کا مختلف عبادات کے ساتھ ستائیسویں رجب کو الاسراء اور معراج منانا جائز اور مستحب عمل ہے؛ کیونکہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر خوشی ہے، اور آپ کی تعظیم ہے۔ جہاں تک وہ اقوال ہیں جو مسلمانوں کو اس عظیم موقع پر مختلف جائز طریقوں کے ساتھ خوشی منانے سے منع کرتے ہیں، وہ ایسے بدعتی لوگوں کی فاسد اقوال اور جمود والی آراء ہیں جو پہلے موجود نہیں تھے اور ان اقوال پر عمل کرنا یا ان پر اعتماد کرنا جائز نہیں۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.