قضاء روزوں اور شوال کے روزوں کو ایک...

Egypt's Dar Al-Ifta

قضاء روزوں اور شوال کے روزوں کو ایک ہی نیت میں جمع کرنا

Question

کیا قضاء روزوں اور شوال کے روزوں کو ایک ہی نیت میں جمع کرنا جائز ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ و السلام علی سيدنا رسول اللہ وعلى آله وصحبه و من والاه۔ وبعد:اکثر فقہاء کرام کے نزدیک نفلی روزے کو فرضی روزے کے تحت شامل کرنا جائز ہے، لیکن اس کے برعکس جائز نہیں ہے؛ یعنی نفلی روزے کے تحت فرضی روزے کی نیت کرنا جائز نہیں ہے۔
اس بناء پر: مسلمان عورت کیلئے رمضان المبارک کے قضاء روزے شوال میں رکھنا جائز ہے، اس طرح رمضان کے قضاء روزے اس کیلئے شوال کے چھے روزے کی طرف سے بھی کافی ہو جائیں گے، اور اسے ان کا ثواب ملے؛ کیونکہ اس نے یہ روزے شوال کے مہینے میں رکھے ہیں، اور یہ اس مسئلہ پر قیاس کیا گیا ہے کہ جب کوئی شخص مسجد میں جائے اور بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز فرض یا سنت مؤکدہ ادا کرلے، تو اسے تحیۃ المسجد کا ثواب بھی ملے گا؛ کیونکہ جو نماز اس نے ادا کی ہے وہ بیٹھنے سے پہلے ادا کی ہے؛ علامہ بجيرمی اپنی کتاب "حاشيه على شرح المنهج" (1/ 280میں فرماتے ہیں: دو یا دو سے زیادہ رکعتوں سے تحیۃ المسد کا ثواب حاصل ہو جاتا ہے، چاہے وہ نماز فرض ہو یا کوئی اور نفل، چاہے اس نے نیت کی ہے یا نہیں کی؛ کیونکہ شیخین رحمھما اللہ نے حدیث مبارکہ نقل کی ہے:«إذَا دَخَلَ أَحَدُكُم الْمَسْجِدَ فَلَا يَجْلِسْ حَتَّى يُصَلِّيَ رَكْعَتَيْ»؛ یعنی جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز ادا کرے'' اور اس لئے بھی کہ مقصد بیٹھنے سے پہلے نماز کا ادا کرنا ہے اور پایا جارہا ہے۔
روزے کے مسئلہ میں امام سیوطی رحمہ اللہ "الأشباه والنظائر" (1/ 22 میں فرماتے ہیں: اگر عرفہ کے دن قضاء یا نذر یا کفارے کا روزہ رکھ لیا اور اس کے ساتھ عرفہ کے روزے کی بھی نیت کر لی، تو علامہ بارزی رحمہ اللہ نے اس کے صحیح ہونے اور دونوں کی طرف سے ثواب کے حصول کا فتوی دیا ہے۔ فرماتے ہیں: مطلق روزہ رکھنے کا بھی یہی حکم ہے۔ انہوں نے اس مسئلہ کو تحیۃ المسجد پر قیاس کیا ہے۔ ہم اس بات سے بھی متبہ کر رہے ہیں کہ چھے روزوں کا ثواب حاصل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اصل سنت کا ثواب ملے گا لیکن کامل ثواب نہیں ملے گا؛ امام رملی رحمہ اللہ "نهاية المحتاج" (3/ 208-209 میں فرماتے ہیں: اگرچہ شوال میں قضاء، نذر یا ان کے علاوہ کوئی روزے رکھے اور اسی طرح عاشورہ کے دن کوئی بھی روزہ رکھا تو نفلی روزے کا ثواب بھی ملے گا، جیسا کہ والد محترم رحمہ اللہ نے امام بارزی، امام اصفونی، امام ناشری اور فقيه علی بن صالح حضرمي وغيره - رحمھم اللہ - کی اتباع میں فتوی دیا ہے، لیکن اسے مطلوب پر مرتب ہونے والا کامل ثواب نہیں ملے گا۔ وہ مطلوب رمضان کے بعد شوال کے مہینے میں چھے روزے رکھنا ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas