ملاوٹ کر کے اور لوگوں کو دھوکہ دے ک...

Egypt's Dar Al-Ifta

ملاوٹ کر کے اور لوگوں کو دھوکہ دے کر روزی کمانے کا حکم

Question

 شریعت مطہرہ میں اس کمائی کا حکم کیا ہے جس کی بنیاد لوگوں سے دھوکہ دہی، ملاوٹ اور چال بازیوں پر ہو؟

Answer

 الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اللہ تعالی نے ہمیں ایسی جائز کمائی کرنے کی اجازت دی ہے جو رضامندی اور باہمی خوش دلی پر مبنی ہے نہ کہ دھوکہ دہی اور خیانت پر۔ اس نے ہمیں حصولِ منافع کے لیے حرام اسباب اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، اور ہمیں حلال رزق کی تلاش میں کوشش کرنے اور حرام کمائی سے دور رہنے کا حکم دیا ہے، اور انسان کے لیے اپنے حلال مال کمانے کا خوہاں ہونے کا حکم دیا؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس سے سوال کیا جائے گا، کیونکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک میں آیا ہے کہ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن ابن آدم کے قدم اپنے رب کی بارگاہ سے نہیں ہٹیں گے جب تک کہ اللہ تعالی اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں نہ پوچھ لے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اس نے کسیے گزاری، اپنی جوانی کے بارے میں کہ اس نے اسے کہاں لگاےٴ رکھا، اور اس کے مال کے بارے میں کہ اس نے اسے کہاں سے کمایا اور اسے کہاں خرچ کیا اور یہ کہ اس نے اپنے علم کے مطابق کتنا عمل کیا "۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث پاک کو اپنی سنن میں تخریج کیا ہے۔ پس یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسان سے اس کے مال کے بارے میں پوچھا جاےٴ گا، کہ حلال ہے یا کہ حرام۔
اس بناء پر ہم کہیں گے کہ مقبول کمائی وہی ہے جس کی اصل جائز ہو، جو ملاوٹ سے پاک ہو، اور اس میں خیانت اور دھوکہ دہی شامل نہ ہو۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ملاوٹ کے ذریعے سے، چھپا کر، اور ایسی ممنوع چالیں استعمال کر کے مال کمانا- جس میں تاجر اشیاءِ ضروریات میں عام لوگوں پر استغلال کرتے ہیں اور نا جائز منافع کماتےہیں- شریعت کی رو سے حرام ہے۔ کیونکہ اس میں لوگوں کو تنگی اور نقصان پہنچتا ہے ۔
جو شخص بھی لوگوں کے مشکل حالات سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ حرام کا ارتکاب کرتا ہے۔ کیونکہ اس نے لوگوں کی ضروریات اور مجبوریوں میں ان کا استحصال کر کے انہیں نقصان پہنچایا ہے؛ اور یہ فعل ان کو جسمانی اور اخلاقی طور پر تکلیف پہنچانے کا سبب بنتا ہے جبکہ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو نقصان پہنچانے سے منع فرمایا ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas