حج اور نکاح میں سے کیا افضل ہے؟
Question
سائل کی عمر چھبیس سال ہے اور ایک عرب ملک میں ملازمت کرتا ہے، وہ مالی طور پر اپنے حلال پیسوں سے حج کر سکتا ہے، لیکن اس نے ابھی تک شادی نہیں کی، اور پوچھنا چاہتا ہے کہ حج کرنے اور شادی کرنے میں سے کون سا کام افضل ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ حج ہر مسلمان مرد اور عورت پر زندگی میں ایک بار فرض ہے، بشرطیکہ اس کی شرائط پوری ہو جائیں، یعنی: مالی اور جسمانی استطاعت۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَللهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ﴾ ]آل عمران: 97.[ ترجمہ: " اور لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا اللہ کا حق ہے جو شخص اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ اور جس نے انکار کیا تو پھر اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے"۔
اور نبی رحمت صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: «بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ..» رواه الشيخان. ترجمہ:" اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔۔۔"۔ اور حج بھی ان میں سے ایک ہے۔
ایک صاحب استطاعت مسلمان میں جب حج کی شروط پوری ہو گئیں اور وہ تاخیر کرتا رہا یہاں تک کہ حج کیے بغیر مر گیا تو وہ گناہگار ہو گا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: «من مَاتَ وَلم يحجّ فليمت إِن شَاءَ يَهُودِيّا أَو نَصْرَانِيّا» رواه الترمذي في "سننه"۔ ترجمہ: جو شخص حج کیے بغیر مر جائے، وہ چاہے تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے، یا عیسائی ہو کر"۔ اسے امام ترمذی نے اپنی "سنن" میں روایت کیا ہے۔ :یعنی جب کسی مسلمان میں حج کی شرائط پوری ہوں اور وہ حج نہ کرے۔
حج فرض اور واجب ہے، لیکن نکاح سنت ہے، اور فرض کو پہلے ادا کرنا واجب ہے، الا یہ کہ وہ غیرشادی شدہ مسلمان سختی اور مشقت کا سامنا کر رہا ہو اور اسے حرام - زنا – میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو اس صورتِ حال میں شادی کرنا اس کے حق میں فرض اور واجب ہے، لہذا اس پر لازم ہے کہ وہ شادی کرے، یعنی شادی کے اخراجات کا انتظام کرے۔ اور پہلے شادی کرے اور پھر اگر وہ حج ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اللہ تعالی کے گھر کا حج کرے۔
چنانچہ حج کی شرائط میں سے یہ نہیں ہے کہ مسلمان مرد یا عورت شادی شدہ ہو، بلکہ جب حج کی شرائط پوری ہوں جائیں تو حج کی ادائیگی شادی شدہ اور غیر شادی شدہ دونوں کی طرف سے صحیح ہے، اور سائل کو حج کی ادائیگی میں جلدی کرنی چاہیے جب تک وہ استطاعت رکھتا ہو اور اعتدال کے ساتھ ہو، اس کےبعد وہ شادی کر لے، اگر حج ادا کرنے اور شادی کرنے یعنی دونوں کاموں کی استطاعت رکھتا ہو۔ سواۓ یہ کہ جب اس کا کسی عورت سے کوئی ربط ہو، جیسے کہ وہ منگنی کی ہوئی ہو یا کسی عورت سے اس کا نکاح ہو چکا ہو اور شادی کو مکمل کرنے اور اپنے نفس کی حفاظت کے لیے سفر کر کے گیا ہو، اور اب اگر شادی نہ ہوئی تو اس کے اور متعلقہ عورت کے ساتھ معملات میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہوں یا یہ شادی کے بغیر صبر نہ کر سکتا ہو، تو ہمارا خیال ہے کہ اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنی شادی کرے اور اس کے بعد اگر ممکن ہو تو فریضہ حج ادا کرے اور سائل کو اپنی حالت واضح کرنی چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مَنْ لَمْ يَحْبِسْهُ مَرَضٌ أَوْ حَاجَةٌ ظَاهِرَةٌ أَوْ مَشَقَّةٌ ظَاهِرَةٌ أَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ فَلَمْ يَحُجَّ فَلْيَمُتْ إنْ شَاءَ يَهُودِيًّا وَإِنْ شَاءَ نَصْرَانِيًّا» رواه البيهقي في "سننه". ترجمہ:ترجمہ ”جس شخص کو کسی بیماری نے، یا کسی ظاہری ضرورت نے، یا کسی ظاہری مشقت نے، یا ظالم حکمران نے نہ روکا ہو پھر بھی اس نے حج نہیں کیا تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر مرے"۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.