ایک ایسے حادثے کی دیت جو غلطی سے کئی لوگوں کے قتل کا سبب بنا
Question
ایک شخص " اسکندریہ " اور " مطروح " والے تیز روڈ پر چھوٹی منی بس چلا رہا تھا ، " مطروح" کی طرف سے آرہا تھا اور" اسکندریہ " کو جارہا تھا جس پر وہ عام طور پر گاڑی چلاتا رہتا ہے ، "ضبعہ " شہر میں داخل ہونے سے تقریبا تین کلو میٹر پہلے شام کے سات بجے اچانک ایک عورت اپنے بیٹے کو ایک ہاتھ سے گود میں لئے ہوئے اور اپنی بیٹی کو دوسرے ہاتھ سے پکڑے ہوئے سڑک پار کر رہی تھی، ڈرائیور انہیں بچا نہیں پایا ، اور ان کو ٹکر ماردی ، نتیجے میں گاڑی اُلٹ گئی اور راستہ دوہرا ہونے کی وجہ سے بائیں والے راستے پر ہی جا کررک سکی ، ڈرائیور صحیح سلامت نکل آیا ، عورت اور اسکا بیٹا اور اس کی بیٹی وفات پاگئے ، اب حادثے میں مرنے والوں کے سرپرست پوچھتے ہیں کہ:
اس قتل کی نوعیت کیا ہے؟ شرعی دیت کتنی ہے؟ اور کس پر واجب ہوتی ہے؟ کیا حادثے میں مرنے والوں کے قبیلے کا اس دیت میں کوئی حق ہے؟
Answer
جان ضائع ہونے کے بدلے میں یا کسی عضو کے تلف ہونے کے بدلے میں جو مال دیا جاتا ہے اسے شریعت میں دیت کہتے ہیں ، اوراس کے واجب ہونے کی اصل اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے(وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلاَّ خَطَئًا وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلاَّ أَن يَصَّدَّقُواْ)[النساء ٩٢] ۔ اور کسی مسلمان کو نہیں پہنچتا کہ وہ کسی مسلمان کا خون کرے مگر ہاتھ بہک کر، اور جو کسی مسلمان کو نا دانستہ قتل کرے تو اس پر ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا ہے اور خون بہا کہ مقتول کے لوگوں کو سپرد کیا جائے مگر یہ کہ وہ معاف کردیں۔
اسی طرح دیت کا بیان سنت مطھرہ میں بھی موجود ہے چنانچہ امام نسائی حضرت ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے اور وہ اپنے والد سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کو ایک حکم نامہ لکھا اس میں آیا ہے: ''ان من اعتبط مؤمنا قتلا عن بینۃ فاِنہ قَوَد یدیہ اِلا ان یرضی اولیاء المقتول ، و ان فی النفس الدیۃ ۔ مائۃ من الابل ۔ الی ان قال : و ان الرجل یقتل بالمراۃ و علی اھل الذھب الف دینار'' ۔ جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردیا تو اس پر قصاص ہے مگر یہ کہ مقتول کے سرپرست( دیت پر ) راضی ہوں ، اور بے شک جان کا قصاص ایک سو اونٹ ہیں ...... یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اور مرد عورت کے بدلے میں قتل کیا جائیگا، اور سونا رکھنے والوں پر ایک ہزار دینار دیت ہے''.
پوری امت کا دیت کے واجب ہونے پر اجماع ہے ، اور غلطی سے کیے گئے قتل کی دیت شریعت میں سونے کے ایک ہزار دینار متعین ہے ، یا چاندی کے بارہ ہزار درھم ہے ، اور اس دوسر ی رائے پر ہی ہمارے زمانے اور ہمارے ملک میں فتویٰ دیا جاتا ہے ، اور جمہور فقہائے کرام کے نزدیک چاندی کا ایک درہم دو گرام اور گرام کے ہزار اجزاء میں سے نو سو پچتھر جز کے برابر ہوتا ہے ، تو اس لحاظ سے یہ مجموعی طور پر پینتیس کلو اور سات سو گرام چاندی بنتی ہے ، اتنے مقدار کی چاندی مقتول کے وارثوں کو دی جائیگی ، یا اس کا جو بازار میں بھاؤ ہو اسی کے مطابق رقم دی جائی گی ، اس رقم کی ادائیگی اسی دن سے لازم ہے جب سے یہ حق ثابت ہوجائے ، چاہے رضا مندی سے ثابت ہو یا عدالت کے حکم سے ، اور دیت کی ذمہ داری باپ کی طرف کے رشتہ داراٹھائیں گے ، اور زیادہ سے زیادہ تین سال کی مدت تک قسطوں میں ادا کی جائیگی ، لیکن اگر دیت دینے والے فی الفور ادا کرنے کے خواہشمند ہوں تو ادا کرسکتے ہیں ، اگرباپ کی طرف کے رشتہ داروں کو ادا کرنے کی طاقت نہ ہو تو قاتل خود ادا کریگا ، اور اگر اس کی بس سے بھی باہر ہو تو پھر یہ دیت دوسروں سے لینی جائز ہے حتی کہ اگر زکوۃ کے مال سے بھی لی جائے تو جائز ہے.
مؤنث کی دیت مذكر کی دیت سے آدھی ہوتی ہے ، یعنی سترہ کیلو آٹھ سو پچاس گرام چاندی یا اس کی قیمت.
نیز دیت کو معاف کروانا یا اس کی کم قیمت منوانا جائز ہے اور قرآن کریم سے ثابت ہے، کیونکہ شارع نے قاتل کی رعایت کے لئے دیت سے دستبر دار ہونا یا اس میں سے کچھ حصہ معاف کرنا مقتول کے اہل خانہ کے سپرد کیا ہے ، کہ اگر اسے سرے سے ہی دیت دینے کی طاقت نہ ہو یا پوری دیت دینے کی طاقت نہ ہو ، اس کے علاوہ چاہے قاتل بڑا ہو یا چھوٹا ، مرد ہو یا عورت ، اس سے دیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہر حالت میں قتل کا پایا جانا موجود ہے ، نیز دیت قبول کرنا شرعی لحاظ سے جائز ہے ، کیونکہ دیت مقتول کے گھر والوں کا حق ہوتا ہے اور دیت قبول کرنے یا اس سے دستبر دار ہونے یا اس کے ایک حصے پر صلح کرنے کا حق انہی کو پہونچتا ہے ، چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالی فرماتا ہے:( فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ)[ البقرۃ ١٧٨]۔ تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی ، تو بھلائی سے تقاضا ہو اور اچھی طرح ادا ہو ، یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ ہلکا کرنا ہے اور تم پر مہربانی ہے۔
چنانچہ فقہائے کرام نے مباشرت وغیرہ سے ماہ رمضان خراب کرنے کے ضمن میں کفاروں کے تداخل کے موضوع پر بحث کی ہے، اور اس سلسلے میں ان کے دو رجحان ہیں :
پہلا رجحان احناف اور بعض حنبلی حضرات کا ہے۔ جن میں خرقی اور ابو بکر مروذی شامل ہیں: ان کا کہنا ہے کہ اس کے لئے ایک ہی کفارہ کافی ہوگا ، کیونکہ یہ کفارہ اس گناہ کا بدلہ ہے جس کا سبب اس کے پورا ہونے سے پہلے دوبارہ آیا ، اس لئے ضروری ہوا کہ حد کی طرح ایک دوسرے میں ضم ہو جائے ، اور اس لئے بھی کہ حقوق اللہ بخشش و نرمی پر مبنی ہوتے ہیں.
دوسرا رجحان مالکی اور شافعی حضرات کا ہے اور اسی کو قاضی ابو یعلی جیسے بعض حنبلیوں نے بھی اختیار کیا ہے: کہ اس کے لئے ایک ہی کفارہ کافی نہیں ہے ، بلکہ اس پر مقتولوں کی تعداد کے مطابق کفارے لازم ہے ، کیونکہ یہاں کفارہ کا سبب متعدد ہے اس لئے ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوسکتے ، جیسے مباشرت کر کے ماہ رمضان کی بے حرمتی کرنے میں دو رمضانوں کے کفاروں کو ایک میں ضم نہیں کرسکتے یا ایک ہی ماہ رمضان میں کئی مرتبہ مباشرت کرنے کو ایک نہیں کر سکتے ، اسی طرح دو حجوں میں مباشرت کرنے کو ایک نہیں کیا جا سکتا ہے ، یعنی متعدد اسباب یا متعدد فسادوں کی وجہ سے متعدد کفارے لازم ہوں گے.
اور اجتماعی وسائل نقل و حرکت میں ایک ہی حادثے میں متعدد قتل کی حالت میں ہمارے اس زمانے میں پہلے والے رجحان کو اختیار کرنا مناسب ہوگا ، کیونکہ پہلا رجحان دوسرے رجحان کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے کیونکہ دوسرے رجحان کے مطابق مقتولوں کی تعداد کے لحاظ سے کفارے لازم آتے ہیں ، اور اس میں حرج اور مشقت پائی جاتی ہے ،اور چونکہ مشہور ہے کہ مشقت آسانی کا باعث ہوتی ہے ، خاص کر اس حالت میں جب کہ قتل غلطی سے واقع ہوا ہو.
اس بنا پر اور سوال کے پیش نظر جو کچھ واقع ہوا ہے اس کو غلطی سے قتل پر ہی محمول کیا جائیگا ، اس شخص کے باپ کی طرف والے رشتہ داروں پر حادثے میں فوت ہوئے افراد کے مطابق مقتول کے وارثوں کو دیت دینا لازم ہے ، ایک مذکر اور دو مؤنث کے حساب سے ، قسطوں میں دیا جائے گا جیسا کہ بیان ہوچکا ہے ، الا یہ کہ اگر وہ معاف کر دیں ، اس کے علاوہ غلطی سے کئی کے مجموعی قتل پر بھی صرف قاتل کو دو ماہ روزے رکھنے ہیں.
دیت صرف اور صرف مقتولوں کے وارثوں کا حق ہے ، اس میں ان کے قبیلے والوں اور دیگر لوگوں کا کوئی حق نہیں ہے.
واضح رہے کہ فیکس کے ذریعے سے کتابی صورت میں جو یہ مسئلہ ہمارے پاس آیا ہے اس میں اس قتل کو غلطی سے قتل کہا گیا ہے ، اس لئے ہم خبردار کرتے ہیں کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جو ہمارے پاس سوال میں وارد ہے ، یعنی اس میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ قاتل نے جان بوجھ کر قتل نہیں کیا یا مقتولوں کے گھات میں نہیں تھا ، ورنہ یہ جان بوجھ کر قتل ہوتا یا قتل شبہ ہوتا ، اور یہ فرض کرتے ہوئے کہ وہ بڑی خلاف ورزی کا مرتکب نہیں تھا ، جیسے وہ گاڑی ٹریفک نظام کے مقرر کردہ رفتارسے زیادہ تیز چلا رہا تھا ، تو اس صورت میں غلطی سے قتل کرنے پر اوپر بیان کردہ کفارہ اور دیت لازم آتے ہیں اس کے علاوہ اس کے اور مقتولین کے وارثوں کے درمیان مناسب فیصلہ کے لئے عدلت کا تدخل بھی ضروری ہے.
باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.